شرقپور کے جنوب مغرب میں چوک شیرربانی سے متعسل محلہ عیدگاہ میں مدرسہ حضرت میاں صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے بالکل سامنے حضرت سید بابا گلاب شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کا مزار واقع ہے۔ حضرت سید بابا گلاب شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ شرقپور کے اس دور اور ان پرانے بزرگوں میں سے ہیں جب شرقپور آباد ہورہا تھا۔ آپ کی پیدائش 1170 ہجری بمطابق 1756 عیسوی میں ہوئی۔ حضرت سید بابا گلاب شاہ صاحب اور ان کے دو دوسرے بھائی حضرت بابا سید جیون شاہ صاحب اور حضرت بابا سید محمد انور شاہ صاحب اپنی چھوٹی عمر میں حافظ محمد اسحاق کے ہاں قرآن پاک پڑھا کرتے تھے. حافظ محمد اسحاق شیخ محمد قائم کے بیٹے تھے جو شرقپور کے شروع کے ان بزرگوں میں سے ہیں جب شرقپور آباد ہوا تھا۔
قرآن مجید حفظ کرنے کے بعد انہوں نے ابتدائی اسلامی کتابیں پڑھیں۔ یہ تینوں بھائی حافظ محمد اسحاق کے شاگرد بس کہنے کو شاگرد تھے۔ مگر حقیقت میں یہ ان کو اپنے بچوں کی طرح عزیز تھے۔ استاد کے گھر میں ہی پرورش پائی اور ان ہی کے گھر میں رہتے تھے۔ جوانی کو پہنچے تو حافظ محمد اسحاق نے ان کی شادیاں سادات کے گھرانوں میں کرنے کا پروگرام بنایا۔ مگر ان تینوں بھائیوں نے محض اس لیے شادی کرنے سے انکار کردیا کہ اگر وہ شادیاں کریں گے تو دین کے خدمت یکسوئی کے ساتھ نہ کرسکیں گے۔
حافظ محمد اسحاق رحمتہ اللہ علیہ نے ان تینوں بھائیوں کو عیدگاہ والی زمین وقف کرکے دیدی اور ہدائت کی کہ وہ وہاں ایک مستقل خانقاہ بنائیں اور بچوں کو پڑھائیں بھی اور اس کے علاوہ خدمت خلق بھی کریں۔ اس مقصد کے لیے ان کو کچھ زرعی زمین بھی دی گئی۔
اس کے بعد حافظ بابا سید گلاب شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے تبلیغ و اشاعت دین کا کام سنبھالا لیا اور ان کے دوسرے بھائی حضرت بابا سید جیون شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کوٹ محمود چلے گئے اور حضرت سید محمد انور شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ سندھ میں چلے گئے۔ یہ تینوں بزرگ پیچھے سے سندھ کے ہی رہنے والے تھے۔
حضرت بابا سید گلاب شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے اس زمین پر ایک عیدگاہ بنائی جو اب بھی ان کے مزار کے ساتھ موجود ہے جس میں وہ خود اور ان کے ہاں آنے والے لوگ نماز پڑھتے تھے۔ مگر عیدین کے مواقع پر سارے شرقپورکے لوگ یہاں آکرعید کی نماز پڑھا کرتے تھے۔ عید کے موقعوں پر یہاں عید میلہ لگ جایا کرتا تھا اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔۔
حب حافظ محمد اسحاق رحمتہ اللہ علیہ کا وصال 1188 ہجری بمطابق 1774 عیسوی میں ہوا تو شرقپور کی ٹاہلی والی مسجد کے مدرسہ میں قرآن مجید پڑھنے والے بچے بابا سید گلاب شاہ صاحب کی درس گاہ میں آگئے۔ بابا جی نے اپنے ان شاگردوں کی مدد سے یہاں ایک باغیچہ بھی لگایا اور ایک بڑھ کا درخت بھی لگایا جو اب تک موجود ہے لیکن اب اپنی عمر تقریبا پوری کرچکا ہے اور خشک ہوگیا ہے۔ یہ بہت گھنا درخت تھا اب صرف اس کا ایک تنا ہی رہ گیا ہے۔
حضرت بابا گلاب شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ ایک صاحب کرامت بزرگ تھے۔ وہ اگر کسی بیمار کو دم کرتے یا پھر پانی دم کرکے دیتے تو وہ بیمار صحت یاب ہو جاتا۔ جن عورتوں کے ہاں اولاد نہیں ہوتی تھی انہیں بھی بابا جی کے دعا کرنے سے اللہ تعالیٰ نے اولاد جیسی نعمت سے سرفراز فرمایا۔ مسلمانوں کے علاوہ ہندو عورتیں بھی آپ کے ہاں آکر اولاد کے لیے دعا کرواتیں اور فیضیاب ہو کے جاتیں۔
آپ کسی سے کوئی نذر نیاز نہیں لیتے تھے۔ تاہم ایسی عورتیں جو دعا کروانے کے لیے آتی ان سے فرماتے کہ شکر کے شربت کا گھڑا بھر کر لایا کریں اور یہاں سے گزرنے والے مسافروں کو پلا دیا کریں۔ اس طرح یہاں سے گزرنے والا ہر مسافر ہروقت یہاں سے اس شربت سے اپنی پیاس بجھایا کرتا تھا۔
یہاں تک کہ جب حضرت بابا گلاب شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کا وصال ہو گیا تو اس کے بعد بھی ان کے سالانہ عرس پر جو اب میلے کی شکل اختیار کرچکا ہے لوگ شکر کے شربت کے گھڑے بھر بھر کر لایا کرتے تھے اور لوگوں کو پلایا کرتے تھے۔ مگر اب یہ سلسلہ بھی ختم ہو گیا ہے۔
حضرت بابا سید گلاب شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کا وصال 1245 ہجری بمطابق 1829 عیسوی میں ہوا۔
آپ کو ان کے ہاتھ سے لگائے گئے بڑھ کے درخت کے دامن میں دفن کیا گیا۔ ویسے بھی انہوں نے وصیت کررکھی تھی کہ ان کو ان کے استاد و مرشد حافظ محمد اسحاق کے قدموں میں دفن کیا جائے۔ چنانچہ یہاں دفن کرنے سے ان کی وصیت پر بھی عمل ہو گیا۔
گیارہ ہاڑ کا دن ان کے وصال کا دن ہے اس دن کی نسبت سے آپ کا میلہ ہر سال ہونے لگا ہے۔ آپ کی قبر ایک طویل مدت تک بغیر مزار کے رہی۔ ازاں بعد مردانہ قد کے برابر چار دیواری بنا کے سر کنڈوں کی چھت ڈال دی گئی۔ مگر جونہی ملک میں کوئی افتاد آتی اور مسلمانوں کو تکلیف پہنچتی یو یہ سرکنڈوں کی چھت یا تو گر جاتی یا پھر اس میں آگ لگ جاتی۔ چنانچہ 1316 ہجری میں اس کی چھت جل گئی۔ 1322 ہجری، 1331 ہجری، 1337 ہجری اور 1347 ہجری میں اس چھت کے ساتھ ایسے ہی حادثے پیشں آئے۔ 1366 ہجری میں حضرت میاں محمد اکرم صاحب متولی دربار بابا گلاب شاہ نے دربار کی چھت پختہ بنادی۔
مزار پر جو دیا جلایا جاتا تھا۔ وہ شدید بارش اور تیز آندھی کے دوران بھی جلتا رہتا تھا۔ اس آستانہ کے سجادہ نشین صاحبزادہ میاں مقصود احمد صاحب خلف الرشید میاں محمد اکرم صاحب ہیں۔ انہیں کی سرپرستی میں ان کی اولاد اور بھائی سالانہ عرس پاک کی تقریب کا انعقاد کرتے ہیں۔
اب صاحبزادہ میاں محمد عمر قادری قلندری حجروی جن کا دواخانہ اور گھر مزار کے ساتھ ہی ہے وہ اس آستانہ پر ماہانہ گیارہویں شریف کا ختم بھی کرواتے ہیں۔
ماخوذ : تاریخ مطالعہ نقوش شرقپور از ماسٹر انور قمر صاحب (مرحوم)