شرقپور کی تاریخ

لاھور سے جڑانوالہ روڑ پر تقریبا 32 کلو میڑ کے فاصلے پر ایک چھوٹا سا سر سبز و شاداب قصبہ آباد ہے جسے شرقپور شریف کہتے ہیں۔ یہ قصبہ اپنے پھلوں اور سبزیوں کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ شرقپور شریف اپنے اولیا کرام اور صوفیا کرام کی وجہ سے بھی جانا جاتا ہے۔ ان اولیا کرام میں حضرت میاں شیر محمد المعروف شیرربانی رحمتہ اللہ علیہ بہت مشہور ہیں۔ جو ایک مادر زاد ولی تھے۔ شرقپور شریف کی سر زمین نے بے شمار اولیا کرام، صوفیا کرام، دانشوروں، صحافیوں، شاعروں، سیاست دانوں اور علما کرام اور مشائخ کرام کو جنم دیا ہے۔ جن کی ادبی سربلندی اور علمی سرفرازیوں کے چرچے ان کی جنم نگری کی محدود فضاوں سے ابھر کر لامحدود دنیائے علم وادب کا حصہ ہی نہیں بلکہ علم اودب کا افتخار اور تہذیب کا نگار بن چکے ہیں۔ اس شہر کی دھرتی نے حضرت میاں شیر محمد شیرربانی رحمتہ اللہ علیہ شرقپوری، حضرت میاں غلام اللہ ثانی لا ثانی، حضرت میاں جمیل احمد شرقپوری رحمتہ اللہ علیہ بانی یوم مجدد الف ثانیؒ، کو جنم دیا جنہوں نے یہاں کی فضاوں میں خوشبو بکھیری۔ شفا الملت میاں نیک محمد اسی بستی والوں میں آباد ہیں۔، حکیم ملک حسن علی یہیں رہا کرتے تھے۔ ملک مظفر علی اس کی سیاست کے آسمان کے تارے بنے۔ حاجی ظہیر ںیاز بیگی اس شہر کی گلی کوچوں کی رونق بنے رہے۔ ڈاکٹر ملک ذوالفقار علی کا تعلق اسی زمین کے ذروں سے تھا۔ ڈاکٹر محمود علی ملک اسی کی نسبت سے شرقپوری ہیں۔ اختر علی مونگا کا تعلق اسی دھرتی سے ہے۔ ملک سرفراز احمد اسی کی بہتری سو چتے رہے۔۔ علامہ نصرت نوشاہی اسی دھرتی کے ہیں. محمد انور قمر شرقپوری کا نام اسی خاک کے صدقے سے ہے۔ اور اس خاکی ملک محمد عثمان جلیل اس ویب سائٹ کو بنانے والے کا تعلق بھی اسی سرزمین سے ہے۔

شرقپور کی سرزمین پر فطرت اپنے پورے حسن کے ساتھ مسکراتی نظر آتی ہے۔ فضاوں میں موجود محبت کی خوشبو دامن دل کھینچتی ہے اور امن وسکون نے یہاں کا معاشرہ اپنی آغوش میں لے رکھا ہے۔ یہ شہر اولیا ہے، جلوت کدہ اصفیاہ ہے۔ جس کا گوشہ گوشہ فیضان سے معمور اور بقعہ نور ہے۔ عظمت اس کے ماتھے کا سویرا ہے تو ماحول کو روحانی تجلیات نے گھیرا ہے۔ یہ دھرتی تہذیب کے دامن میں ہے۔ یہ زندہ دلوں کا مسکن اور گہوارہ علم وفن اور روحانیت کا مدفن ہے، تاریخ کے یادگار لمحے اسے سلام کہتے ہوئے گزرتے ہیں۔ جناب محمد امین شرقپوری (مصنف رسالہ بچوں کا باغ)نے درست لکھا تھا۔ میرے دیس کے سر پر زمرد کا تاج ہے اور گلے میں پانج لڑی کا یا قوتی ہار۔ اس کے پھبن پر کئی راجےمہاراجے اپنا من ہار چکے ہیں مگر یہ چنچل کسی کے قابو نہیں آتا۔ قاضی شیخ محمد نے قصیدہ امالی (قلمی) کے خاتمہ میں یہ دعائیہ الفاظ رقم کئے۔

درموضع شرقپور صانہ اللہ عن الآفات والخطر
اللہ تعالیٰ شرقپور کو آفتوں اور خطروں سے مٖحفوظ فرمائے۔

پیر سید عبدالقادر ثانی کیمیاؒ نظر نے اپنے اس خط میں جو حافظ محمد یعقوبؒ چشتی کے نام لکھا تھا۔ شرقپور کو یہ دعا دی ہے۔

الہی خطہ، مسعود شرقپور موجود
مدام بادسلامت بخیر مثل حصار

حضرت شاہ محمد مراد نوشاہیؒ کی شعری تصنیف وحدت نامہ کے آخر میں ہے

الہی شرقپور آباد دار مکیناں ایں قریہ را شاد دار
اے اللہ شرقپور کو آباد رکھ اور اس گاوں میں رہنے والوں کو خوش رکھ۔۔

ایسی مستجاب الدعوات ہستیوں کی دعا وبرکت سے اس مبارک سر زمین کا قدرتی حسن ہر دور میں نکھرتا چلا آیا ہے۔

شرقپور کی تاریخ کے متعلق کوئی تاریخی شہادتیں موجود نہیں۔ نہ کوئی مکمل تاریخ ہے۔ زیادہ تر تاریخ مختلف لوگوں کی یاداشتوں کی سہارے لی گئ ہے۔ جو کہ ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہوتی آئی ہیں۔ شرقپور کی تاریخ پر محمد انور قمر صاحب نے جو تحقیق کی تھی زیادہ تر مواد اور معلومات ان کی کتاب مطالعہ نقوش شرقپور سے لی گئی ہیں۔ کہا یہ جاتا ہے کہ اس قصبہ کی بنیاد مغل بادشاہ شاہ جہاں (جنوری 1592 تا جنوری 1666) کے دور میں رکھی گئی تھی۔ جس شخص نے اس قصبہ کی بنیاد رکھی تھی وہ حافظ محمد جمال تھے۔ حافظ محمد جمال کا تعلق چنڈور خاندان سے تھا۔ اور دیپالپور سے آئے تھے۔ ان کے ساتھ 100 سے اوپر اور لوگ بھی تھے۔ جن میں حافظ محمد جمال کے اپنے رشتے دار، بھائی، بھتیجے اور بھانجے تھے۔ علاوہ ازیں ان کے خدمت گار بھی ان کے ہمراہ تھے۔ اس قصبے کی بنیاد دریائے راوی کے کنارے اور لاہور کے قریب رکھی گئی تھی۔

پچھلے کچھ 25 یا 30 سال سے یہ مشہور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ شرقپور کے بانی حافظ محمد اسحاق تھے۔ ڈاکٹر میاں مقصود احمد جو کہ شیخ محمد قائم کی اولاد میں سے ہیں وہ یہ دعوی کرتے ہیں کہ حافظ محمد اسحاق جو کہ شیخ محمد قائم کے بیٹے تھے انہوں نے شرقپور کی بنیاد رکھی۔ ان کے مطابق شیخ محمد قائم اس علاقہ میں 1757 عیسوی میں شاہ جہاں بادشاہ کی اجازت کے ساتھ آئے اور شرقپور کی بنیاد رکھی۔ لیکن شاہ جہاں بادشاہ کا دور حکومت 1628 عیسوی تا 1658 عیسوی تھا۔ اور یہ بات واضع ہے کہ جب شیخ محمد قائم اس علاقہ میں شرقپور کی بنیاد رکھنے آئے تو اس وقت حافظ محمد اسحاق کو بہت نوجوان ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ حافظ محمد جمال کی قبر پر ان کی جو وفات کی تاریخ لکھی ہے وہ 1763 عیسوی ہے۔ اس صورت حال میں حافظ محمد جمال 1763-1658=105 یعنی 105 سال کی عمر پائی۔ اور یہ بات بھی محقق ہے کہ حافظ محمد جمال نے کل 125 سال کی عمر پائی ہے۔ لہذا اب ہم آسانی سے کہ سکتے ہیں کہ جب حافظ محد جمال شرقپور میں بانی شرقپور بن کر آئے وہ 20 سال کے نوجوان تھے۔ اگر حافظ محمد حیات کو حافظ محمد جمال سے چھوٹا مانا جائے تو اس کی عمر 20 سال سے بھی کم ہوگی اور یہ عمر بھی شاہجہان کے اس دور کی ہوگی جب شاہجہان کی وفات ہوتی ہے۔ اگر حافظ محمد حیات شاہجہان کے دور میں دہلی گیا ہے اور اس کی زندگی کے چند سال دیکھے ہیں تو دہلی میں جاتے وقت اس کی عمر اور کم ہو جائے گی۔ یعنی 13 یا 14 سال رہ جائے گی۔ اتنی عمر کا لڑکا تو اپنی تعلیم مکمل کررہا ہوتا ہے۔ وہ مغلیہ شہزادوں کا اتالیق کیسے بن سکتا ہے۔ لہذا یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ حافظ محمد حیات ہی حافظ محمد جمال سے بڑا ہے اور بہت بڑا ہے۔ یہاں تک کہ حافظ محمد امین سے بھی بڑا ہے جو ان کا منجھلا بھائی ہے۔

حافظ محمد جمال کے والد حکیم محمد صادق اور ان کے والد محمد یوسف حافظ محمد جمال کے دادا اور محمد حیات حافظ محمد جمال کے بڑھے بھائی 3 نسلوں سے دہلی میں مغل شہزادوں کے استاد اور اتالیق اور خیر خواہ تھے۔ جب کوئی شہزادہ اپنی تعلیم مکمل کرتا تو وہ اپنے استاد کو انعامات سے نوازتا۔ شرقپور کی سرزمین بھی مغل شہزادے کی طرف سے تحفہ کے طور پر دی گئی تھی۔۔ کیونکہ ان لوگوں کو مغل دربار میں بہت عزت تھی اس لیے انہوں نے شروع میں اس زمین کی طرف کوئی خاص توجہ نہ دی جو کہ جنگل اور جھاڑیوں سے بری ہوئی تھی۔ مگر اس تحفہ دی گئ زمین کی مشہوری اردگرد کے علاقوں میں ہونا شروع ہو گئی تھی۔

سچ تو یہ ہے کہ کسی بستی کی بنیاد نہ تو ایک دن میں یا ایک شخص کے ذریعے رکھی جاسکتی ہے۔ شرقپور کا بانی کوئی ایک شخص نہیں ہو سکتا بلکہ کہ بہت سے لوگ ہیں۔ اور ان لوگوں کی نسلوں کو یہ کہنے کا یہ حق ہے کہ ان کے اباواجداد بھی ان لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے شرقپور کی بنیاد رکھی۔ وہ تمام بوڑھے لوگ جو اپنی لاٹھیوں کو ٹیکتے ہوئے حافظ محمد جمال کے ساتھ چل کر یہاں آئے۔ یا وہ بچے جو اپنی ماوں کی گود میں تھے وہ بھی شرقپور کو آباد کرنے میں شامل ہیں۔ میاں محمد عاشق نے اپنی کتاب شرقپور کی تاریخ کے صفحہ 21 اور 22 میں 100 سے زیادہ ایسے نام گنوائے ہیں جو ان لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے شرقپور کی بنیاد رکھی تھی۔

شرقپور کی بستی کی زمین اور اس کی زرعی رقبہ کے اصل مالک کون ہیں اور کس طرح؟ یہ ایک سوال ہے جس کا جواب آج کا ہر محقق جاننا چاہتا ہے مگر اسے جو بھی جواب ملتا ہے اس کی تسلی نہیں ہوتی۔ ہم اس موضو ع پر کھل کر بات کرتے ہیں۔ اس بارے میں دو روائتیں حافظ خاندان کے بعض افراد کی زبانوں پر ہیں۔
۔ چونکہ حافظ محد یوسف (دادا حافظ محمد جمال) حکیم حافظ محمد صادق (والد حافظ محمد جمال) اور حافظ محمد حیات (بڑا بھائی حافظ محمد جمال) کا تعلق دربار دہلی سے تھا اور وہ مغل شہزادگان کے اتالیق تھے۔ اس لئے جب بھی کوئی مغل شہزادہ ان استادوں سے تعلیم مکمل کرتا تو اسے بہت سے انعامات سے نوازتا۔ تحفے اس قدر زیادہ ہوتے کہ ڈھیر لگ جاتے۔ شرقپور کی زمین بھی کسی ایسے ہی موقع پر دیا گیا تحفہ ہے۔ِ
مگر روائت پر جرح کرنے والے کہتے ہیں کہ اگر کسی شخص کا بانی ہونا ملکیت زمین کے باعث ہے تو پھر حافظ محمد جمال اس کے بانی نہیں ہوسکتے بلکہ اس کے بانیوں میں نام آئیں گئے۔ حافظ محمد یوسف، حکیم حافظ محمد صادق، حافظ محمد حیات اس طرح حافظ محمد حیات، حافظ محمد امین اور حافظ محمد جمال کے رقبے برابر ہونے چاہیں تھے۔ کیونکہ یہ تینوں بھائی ہیں۔ اور حکیم حافظ محمد صادق کے بیٹے ہیں۔ مگر ایسا نہیں ہے ان کے پاس یہاں کی زمین کے رقبے برابر نہیں ہیں۔ حافظ محمد امین یااس کی اولاد کو اس زمین میں سے کچھ حصہ نہیں ملا۔ حافظ محمد حیات کی اولاد کے پاس صرف ایک سو ایکٹر زمین تھی۔ جو اس کے بیٹے حافظ محمد مستقیم کو اس بنیاد پر ملی تھی کہ وہ حافظ محمد جمال کی داماد تھا۔ اور حافظ محمد جمال کی بیٹی بخت آور عرف لعلاں بی بی کو باپ نے دی تھی۔ گویا کہ اس ساری زمین کا واحد مالک حافظ محمد جمال ہی تھا۔ اب حافظ جمال کو یہ زمین کیسے ملی اس کا تعلق تو دہلی دربار سے نہیں تھا اور نہ ہی اس نے کوئی ایسا کارنامہ سرانجام دیا تھا۔ جس کے صلے میں اسے یہ زمین ملی ہے۔

ہماری اس الجھن کو دوسری روائت دور کرتی ہے۔ جو قرین قیاس بھی لگتی ہے کہ حافظ محمد جمال اپنے بڑے بھائی حافظ محمد حیات سے ملنے کے لیے دہلی میں گئے تھے۔ دوسرے دن صبح کی نماز پڑھنے لگے تو بڑے بھائی نے حافظ محمد جمال کو مصلے پر کھڑا کر دیا۔ حافظ محمد جمال کو اللہ تعالیٰ نے پرسوز آواز اور اچھا گلا دیا تھا۔ آپ اس انداز سے قرآن پاک پڑھ رہے تھے کہ مقتدی مسحور ہوئے جا رہے تھے۔ اتفاق سے ان مقتدین میں شاہجہان اور حافظ بایزید محمد بن حضرت فتح محمد (والد ماجد سلطان العارفین حضرت سلطان باہوؒ) بھی شامل تھے۔ حضرت بایزید شاہجہان کے ہاں منصب دار تھے۔ آپ نہایت متبع سنت حافظ قرآن فقیہہ، عالم با عمل اور قناعت پسند بزرگ تھے۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد بادشاہ نے پوچھا یہ نوجوان امام کون ہے۔ حافظ محمد حیات نے عرض کی کہ یہ میرے چھوٹے بھائی ہیں اور حافظ قرآن ہیں۔
بادشاہ بہت خوش ہوا۔ دعا کی کہ اللہ انہیں ذوق و شوق عطا فرمائے بہت صاف آواز میں قرآن پڑھتے ہیں۔ اگر آپ لوگ برا نہ منایں تو یہ نوجوان جب تک ہمارے ہاں مہمان ہیں نماز پڑھایا کریں۔ حافظ محمد جمال دو ماہ تک یہاں ٹھہرے اور شاہجہاں کے اصرار پر پانچوں وقت نمازیں پڑھاتے رہے۔

انہیں دنوں حضرت بایزید محمد بن فتح محمد کی خدمات پر خوش ہو کر بادشاہ نے انہیں شورکوٹ ضلع جھنگ میں ایک سالم گاوں قہرگان اور پچاس ہزار بھیگہ زمین بطور انعام عطا فرمائی۔ چونکہ حضرت صاحب بھی نوجوان حافظ محمد جمال کے قرآن پڑھنے پر بہت خوش تھے۔ بادشاہ سے عرض کی۔ شہنشاہ معظم یہ پچاس ہزار بھیگہ زمین بہت زیادہ ہے اس کو سنبھالنا اور کھیتی باڑی کرنا میرے بس میں نہ ہوگا۔ میں چاہتا ہوں اس کا کچھ حصہ حافظ محمد جمال کو دے دیا جائے۔
بادشاہ نے کہا نہیں ہم جو کچھ دے دیتے ہیں اس میں سے واپس لینا پسند نہیں کرتے۔ میں انہیں کچھ زمین نواح لاھور اور قریب کنار دریائے راوی دے رہا ہوں۔
اس طرح جب حافظ محمد جمال دہلی سے واپس لوٹے تو اس عطیہ کی گئی زمین کے کاغذات ان کے ساتھ تھے۔ اس رقبہ کا پھیلاو کس قدر تھا کچھ پتا نہیں۔ ان کی اولادیں خوب جانتی ہوں گی۔ یا ان کے ہاں محفوظ کاغذات سے پتہ چل سکے گا۔ جن تک ہماری رسائی ابھی تک نہیں ہوئی۔

رقبہ جس قدر بھی تھا اس میں مزید اضافہ بقول حافظ عبدالواحد اس وقت ہوا جب شاہجہان شکار کھیلتا ہوا ایک ہرنی کے تعاقب میں یہاں تک چلا آیا۔ ہرنی نے دریا کے کنارے ایک بزرگ حضرت میاں امانت علی (جو کہ شاہ محمد مرادؒ کے مرید خاص اور خلیفہ تھے۔ شاہجہان نے انہیں ہرنی شاہ کا خطاب دیا تھا۔ شرقپور میں محلہ ہرنی شاہؒ انہیں کے نام سے منسوب ہے۔) کے آگے سر جھکا دیا اور زبان حال سے عرض کی۔ کہ اے اللہ کے نیک بندے مجھے شکاری کے تیروں سے بچائیے۔ تھوڑی دیر بعد شاہجہان اپنے ہانپتے ہوئے گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھا ہوا آگیا۔
شاہجہان یہ منظر دیکھ کر بڑا حیران ہوا اور متاثر بھی کہ اس بزرگ کا مرتبہ اور مقام کس قدر ہو گا جس کے آگے ایک بے زبان جانور بھی سر جھکائے فریاد رساں ہے۔ بادشاہ آپ کے پاس آیا، ٹھنڈے پانی سے پیاس بجھائی۔ پھر کہا۔ میں شہنشاہ ہند ہوں۔ مجھے شاہجہان کہتے ہیں۔ میرے لائق جو بھی آپ خدمت بتائیں گے دل وجان سے بجا لاوں گا۔ آپ نے فرمایا، ہمیں تو اللہ نے پہلے ہی بہت کچھ دے رکھا ہے ۔ یہ دریا کی موجیں، درختوں کے سائے اور تنہائی کا ماحول ہمارے کئے کیا کچھ کم نعمتیں ہیں۔ ہمارے لیے تو انیں کا شکر ادا کرنا مشکل ہے۔ بس آپ ہمارے لیے قناعت پسندی کی دعا کرتے رہیں۔

شاہجہان کی آمد کا سن کر حافظ محمد جمال بھی ادھر آ نکلے، سلام کیا اور اپنے تعارف میں دہلی میں نمازیں پڑھانے، قرآن پڑھنے اور انعام میں یہاں کی اراضی پانے کا واقعہ بیان کیا۔ بادشاہ کو ایک ایک بات یاد آگئ۔ اب حافظ محمد جمال بادشاہ کے اپنے ہاں لے آئے اس کی دعوت کی اور پھر ہرن کے شکار کرنے میں اس کی مدد کی۔ بادشاہ جب جانے لگا تو حافظ محمد جمال سے فرمایا۔ معلوم ہوتا ہے تم یہاں کی زمین کی آبادی میں خوب دلچسپی لے رہے ہو۔ اگر تم چاہو تو ہم مزید رقبہ آپ کے دے دیتے ہیں۔ آپ یوں کریں کہ صبح سے شام تک گھوڑے پر بیٹھ کر جتنی چاہو اردگرد کی زمین کو گھیرے میں لے سکتے ہو۔ چناچہ حافظ محمد جمال کے ایسا کرنے سے ایک وسیع رقبہ ان کے قبضے میں آ گیا۔۔ ملک شیر علی کو معلومات کے مطابق یہ رقبہ چار ہزار ایکڑ کے قریب تھا۔

نوٹ
اس روایت کے درست تسلیم کرنے میں ایک تردد ضرور پیدا ہوتا ہے کہ حضرت شاہ محمد مرادؒ اور حضرت امانتؒ کی آمد شاہجہان کے دور میں نہیں بلکہ اورنگ زیب عالمگیر کے دور میں ہے۔ ممکن ہے راوی سے اورنگ زیب عالمگیر کے نام کی بجائے شاہجہان کا نام بتانے میں سہو ہوا ہو۔

حافظ محمد جمال کا محل

شرقپور کے درمیانی حصے سے کچھ آگے ایک عالیشان محل تھا جو مغلیہ طرز تعمیر کا منفرد نمونہ تھا۔ شاہی قلعہ لاھور کے شیش محل کی طرح اس کے درودیوار منقش چھتیں آئینہ کاری سے مزین، قابل دید تھیں۔ دروازہ کے تختے ماہر تزئین کاروں کی فنی مہارت کا من بولتا ثبوت تھے۔ 1946 تا 1956 تک یہ محل ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا۔ تین جالی دار جھروکے بازار کی طرف تھے جن میں جھانکنے سےنیچے کو سیڑھیاں اترتی معلوم ہوتی تھیں۔ لوگ کہتے تھے کہ یہ سرنگیں ہیں جو دور تک جاتی ہیں۔ مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے یہ شاہی محل آہست آہستہ منہدم ہو گیا۔ کہتے ہیں یہ محل حافظ محمد جمال کی ملکیت تھا۔ اب اس کی جگہ دوکانیں اور مارکیٹ بن گئی ہے۔


ڈیرہ حافظ محمد جمال

روشنائی یا سبزی منڈی والے دروازے کے سامنے ایک بوھے والا ڈیرہ (ڈیرہ حافظ محمد جمال) بھی تھا۔ یہ ڈیرہ شرقپور کے بانی حافظ محمد جمال نے شاہ جہاں بادشاہ کے دور میں آباد کیا تھا۔ اس ڈیرے میں حافظ محمد جمال اور دوسرے لوگ جنہوں نے شرقپور کو آباد کیا تھا۔ شام کو بیٹھ کربیٹھک لگایا کرتے تھے اور حقہ پیا کرتےتھے۔ شروع میں اس ڈیرے میں ایک مسافر خانہ بنایا گیا تھا۔ پھر اس میں پختہ کمرے بن گئے۔ حافظ محمد جمال یہاں ڈیرہ لگایا کرتے تھے اور آنے والے مہمانوں کی لسی اور روٹی سے تواضہ کی جاتی تھی۔ حافظ محمد جمال کے بعد ان کے بیٹوں حافظ محمد برہان، حافظ محمد اور حافظ احمد نے اسی نہج پر اس ڈیرے کو چلایا جس پر ان کا باپ چلاتا تھا۔ مگر ان کے بعد ان کے بیٹے بکھر گئے اور اپنے دھندوں میں ایسے الجھے کے ڈیرے پر توجہ نہ دے سکے۔ اور یہ ڈیرہ محض فارغ قسم کے لوگوں کے لیے بیٹھنے کی جگہ بن گیا۔ حافظ ملک مظفر علی اور ا نکے بھتیجے حافظ برکت علی کی زندگی میں اس ڈیرے میں شام کے بعد کچھ گہما گہمی ہوتی تھی۔ زیادہ باتیں سیاست پر ہوتی تھیں۔ سائیں محمد رمضان ڈیرے کے دھوئیں اور حقے کا زمہ دار ہوتا تھا۔ بعد میں یہ ڈیرہ محض فاتحہ خوانی کے لیے استعمال ہونے لگا۔ یا کھبی کبھی کوئی چھوٹا موٹا مذہبی یا سیاسی جلسہ ہو جاتا تھا۔ اگست 13، 2015 کو یہ ڈیرہ ڈی سی او شیخوپورہ کرن خورشید کے حکم پر اسسٹنٹ کمشنر شرقپور نورش صبا کی موجودگی میی مسمار کر دیا گیا۔

روشنائی دروازے کے سامنے موجود تاریخی ڈیرے، ڈیرہ حافظ محمد جمال کو گرائے جانے کی تصاویر۔

ڈیرہ حافٖظ محمد جمال
ڈیرہ حافٖظ محمد جمال
ڈیرہ حافٖظ محمد جمال
ڈیرہ حافٖظ محمد جمال
ڈیرہ حافٖظ محمد جمال
ڈیرہ حافٖظ محمد جمال

نوبت یا نقارہ

اس نوبت کو نقارہ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ تعداد میں 5 تھیں جو شاہ جہاں بادشاہ نے حافظ محمد جمال کو دی تھیں۔ ان کے اوپر شاہ جہاں کی مہریں بھی لگی ہوئی تھیں۔ ایک نقارہ حافظ محمد جمال کے ڈیرے میں تھا۔ باقی کے چار قصبے کے چاروں کونوں میں رکھے گئے تھے۔ اور کسی بھی خطرے کی صورت میں یہ نقارے بجائے جاتے تھے۔ بعد میں ان میں سے 3 کو حضرت میاں محمد سعید کے دربار پر بھیج دیا گیا اور باقی 2 کو ڈیرہ حافظ محمد جمال میں رکھا گیا۔ بعد میں حافظ محمد اسلم حکیم جو کہ حافظ محمد جمال کی اولاد میں سے ہیں جب وہ مسجد میاں صاحب مین بازار میں قرآن حفظ کر رہے تھے تو ان کے استادوں قاری محمد ابراہیم اور حاجی عبدالرحمان (خلیفہ میاں صاحب) نے ان سے نقارہ کی بابت پوچھا تھا۔ لہذا ملک شیر علی نے حافظ محمد اسلم کے پوچھنے پر ایک نقارہ مسجد میں دے دیا تھا جہاں ہر سال اس کا کور گائے کی کھال کے چمڑے سے تبدیل کیا جاتا تھا۔ یہ نقارہ ہر سال رمضان میں سحری اور افطاری کی موقع پر بجایا جاتا تھا۔ اس نقارہ کو قاری محمد ابراہیم، حاجی عبدالرحمان، حافظ عبدالوحید، محمد انور قمر شرقپوری اور ان کے استاد سید الف شاہ بجاتے رہے ہیں۔ اس ڈرم کے اوپر شاہ جہاں کی مہر تھی۔ پانچواں نقارہ مسجد خان بہارد والی محلہ حکیم گڑھی میں رکھا گیا تھا۔

تلوار

حافظ محمد جمال ایک تلوار ہر وقت اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ یہ تلوار اب بھی حافظ عبدالواحد کے پاس موجود ہے۔ اس کا نیام چمڑے کا بنا ہوا تھا اور مٹھی چاندی کی بنی ہوئی تھی۔

کلہاڑی

حافظ محمد جمال ایک کلہاڑی بھی ہر وقت اپنے پاس رکھتے تھے جس کا دستہ لکڑی کا بنا ہوا تھا۔ یہ بھی حافظ عبدالواحد کے پاس موجود ہے۔

حقہ بمعہ چلم

تقریبا ساڑھے 3 صدیاں پہلے حافظ محمد جمال نے اس حقے سے پہلے کش کا دھواں چھوڑا کراس علاقے میں آنے والے انسانوں کے ایک قافلے کی آمد کا پتہ دیا تھا۔ یہ حقہ ڈیرہ حافظ محمد جمال میں رکھا گیا تھا اور ڈیرے کی رونق تھی۔ اس حقہ کا پائپ چاندی کا بنا ہوا تھا۔

قرآن پاک والی پٹی

یہ پٹی حافظ محمد جمال نے شاہجہان کی خدمت میں تحفہ بھیجنے کے لئے بنائی تھی۔ کاغذ پر آدھ انچ موٹے الفاظ میں
ياسين والقرآن الحكيم إنك لمن المرسلين على صراط مستقيم
لھکا گیا ہے شروع میں
اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم
بسم الله الرحمن الرحيم
اور حضرت محمد رسول اللہﷺ حضرت فاطمتہ الزہرا رضی اللہ عنہا،
حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ، حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ، حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ، حضرت زین العابدین رضی اللہ عنہ، حضرت امام باقر رضی اللہ عنہ، حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ، حضرت امام موسیٰ کاظم رضی اللہ عنہ، حضرت امام علی رضا رضی اللہ عنہ، حضرت امام محمد تقی رضی اللہ عنہ، حضرت امام علی نقی رضی اللہ عنہ، حضرت حسن عسکری رضی اللہ عنہ، اور حضرت امام مہدی رضی اللہ عنہ کے نام سنہرے حروف میں لکھے ہوئے ہیں۔ اور پھر ان کے درمیان میں پورا قرآن مجید لکھا گیا ہے۔
یہ پٹی حافظ عبدالواحد کے پاس ہے۔ اس پٹی کا کاغذ جب زیادہ بسیدہ ہوگیا تو ملک شیر علی کے دادا جان حکیم شیر علی نے اس پٹی کے نیچے دھاگے سے ململ کا کپڑا لگادیا۔

شرقپور جس شکل و صورت میں آج آپ کو دکھائی دیتا ہے۔ کھبی ایسا نہ تھا۔ جب آباد ہونے لگا تو آباد کرنے والوں نے تصوراتی حد بندیاں قائم کیں۔ اور ان حدوں کے اندر اگے ہوئے خودرو سرکنڈوں کے بوٹے اور جھاڑیاں اکھاڑیں اور وہ گڑھے پر کیے جن میں بارش کا پانی کھڑا ہو جاتا تھا۔ خیمے گاڑ دئیے اور جھگیاں بنالیں۔ مال مویشی باندھے پھر ان جھونپڑیوں کے گرد ایک ایسی لکیر کھینچی جس نے ایک چوکور شکل اختیار کر کے بستی کے رقبے کا تعین کیا۔ اس کے بعد جو قدم اٹھایا گیا وہ اس لکیر کے اوپر ایک باڑ لگائی گئی۔ کچھ ایسی ہی باڑیں ہر جھونپڑی والے نے اپنی معینہ جگہ کے گرد بھی لگائیں۔ گویا کہ اس جگہ کی صفائی اس کے ذمے تھی۔ اس کے مال مویشی بھی اس حاد بندی کے اندر ہوتے تھے۔ اس کے اندر انہوں نے اٹھنا بیٹھنا اور سونا جاگنا شروع کر لیا۔ گویا کہ ایسی جگہوں نے ان کے گھروں کا تصور پیش کیا۔ یہاں ان کے اپنے اپنے چولہے جلے۔ اور دھویں نے ایک آبادی کا ثبوت فراہم کرنا شروع کر دیا۔

اگرچہ اس جنگل بیلے میں یہ باڑیں لگائی گئیں مگر بستی کے لوگ غیر محفوظ تھے۔ اب اس جگہ پر باڑ کی جگہ کچی حصار کھینچنے کا فیصلہ ہوا۔ اگرچہ یہ ایک مشترکہ کام تھا۔ مگر ہر شخص اس کے اخراجات کے لیے رقم فراہم کرنے کے قابل نہ تھا۔ غریبوں کے پاس تو بس یا وقت تھا۔ یا کسیاں چلانے اور ٹوکریاں اٹھانے کی قوت تھی۔ ان غریبوں میں سات گھرانے کمہاروں کے تھے۔ جن کے گدھے مٹی لانے لگے۔ کچھ بیل گاڑیاں بھی تھیں۔ وہ بھی مٹی بھر بھر کے لانے لگیں۔ اور فٖصیل کا کام شروع ہوگیا۔ حافظ محمد جمال نے ان لوگوں کے کھانے دانے کا انتظام اپنے ذمے لیا۔ کم وبیشں ایک سال کے بعد فصیل کی تکیمیل ہوئی۔ جو باہر سے ساڑھے 6 ہاتھ بلند تھی۔ اور اندر سے بلندی اتنی نہ تھی۔ چوڑائی 9 ہاتھ تھی۔ (ہاتھ تقریبا ڈیڑھ فٹ کے قریب ہوتا ہے۔) اور لمبائیاں 250 کرم اور چوڑائیاں 240 کرم کے قریب تھیں۔

آبادی کی حدوں کا تعین مشرق وجنوب کی طرفوں کے متوازی نہیں تھا بلکہ ترچھی کر دی گئی تھی۔ اس طرح مشرق سے نکلنے والے سورج کی شعاعیں اس کی حدوں پر 45 کا زاویہ بناتی تھیں۔ پرانے لوگ سے یہ بات سننے میں آئی ہے کہ یہ اس لیے کیا گیا تھا۔ کہ اگر کوئی شخص بے احتیاطی میں پاوں پھیلا کر سوجائے تو اس کے پاوں عین جانب مغرب (کعبہ) کی طرف نہ ہوں۔ تعمیر نو کے وقت اس فرق کو دور کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مگر زیادہ فرق نہیں پڑا اب بھی اندر کی گلیاں، بازار اور مکانوں کے رخ ویسے کے ویسے ہی ہیں۔ تقریبا ہر مکان میں ترچھاو ہے۔ پرانے شرقپور کا رقبہ تقریبا 333 کنال اور آباد کار 110 تھے۔ اگرچہ چاہتے تو ہر گھرانہ کنالوں میں جگہ گھیر سکتا تھا۔ مگر یہ لوگ کشادہ دل والے تھے۔ جگہ کی نسبت ان کے دلوں میں احساس اور محبت بھری ہوئی تھی۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ خود بانی شرقپور کے محل کا رقبہ صرف 10 مرلے تھا۔ اگرچہ چاہتے تو پورے ایک ایکڑ میں یہ محل تعمیر کر سکتے تھے۔ کمہاروں کے سات گھرانوں نے صرف 8 مرلہ زمین پر اکتفا کر لیا۔ ماچھیوں نے 2، 2 مرلوں میں اپنی چارپائیاں بچھالیں۔ نائیوں نے اپنے مکان 3 مرلے سے بڑے نہیں بنائے۔ ایسے ہی ترکھانوں اور لوہاروں کے مکان بھی کم وبیش اسی مقدار کے رقبوں میں بنے۔ پھر جوں جوں ان کی اولادیں جوان ہوئیں۔ انہوں نے جگہیں خریدیں اور اندورنی بستی بننے لگی۔

بہرحال شرقپور خیمہ بستی سے جھگیوں میں اور پھر کچے پکے مکانوں میں تبدیل ہوا۔ گلیاں بن گئیں۔ بازار سجنے لگے۔ کچی فصیل بنی۔ دروازے بنے۔ حافظ اور شیخانہ خاندانوں کے بعد ملکانے آئے اور 1867 کے بعد شیخ آئے۔ شیخوں سے قبل ہندو گھرانے بھی یہاں آگئے تھے۔ اب رہنے سہنے کے انداز بدلے۔ زراعت کے ساتھ تجارت نے کندھے ملائے، معاشی وسائل کے ساتھ ساتھ معاشی مسائل نے بھی سر ابھارا۔ ان پر قابو پانے کے لئے بستی کے سب لوگ سرجوڑ کر بیٹھے۔وقت کے ساتھ ضلعی انتظامیہ سے رابطے قائم ہوئے۔ حکومت نے اس کی ترقی پر دھیان دیا۔ تھانہ بن گیا۔ تحصیل بنی، ہسپتال بنا، ہائی سکول بنا، جنگلات اور زراعت کے محکموں کے دفاتر قائم ہوئے۔

ان لوگوں کے آنے سے پہلے گھنے بیلے میں کچھ جھگیاں بنی ہوئی تھیں۔ یہ جرائم پیشہ لوگوں کی جھگیاں تھیں۔ یہ لوگ شاہدرہ اور بیگم کوٹ کے گھروں کو رات کے اندھیرے میں لوٹ لاتے اور یہاں آکر چھپ جاتے۔ اس جنگل میں ڈھور ڈنگر چرانے والے اس بستی کو سارق پور کہتے تھے۔ سارق عربی زبان میں چور، ڈاکو اور لٹیرے کو کہتے ہیں۔ اسی مناسبت سے اس کا نام سارق پور رکھا گیا تھا۔ یعنی لٹیروں کی بستی۔ ان نئے آنے والے لوگوں میں اکثر لوگ پڑھے لکھے تھے۔ انہیں اپنی بستی کے لیے یہ نام پسند نہیں آیا۔ وہ تو کوئی اچھے مفہوم والا نام رکھنا چاہتے تھے۔ انہوں نے جو جائزہ لیا تو انہیں ایک رستہ شیخوپورہ کو جاتا دکھائی دیا۔ ایک خودپور کو جارہا تھا۔ ایک بھینی کو ملا رہا تھا۔ ایک راستے کا تعلق لاھور سے تھا۔ اور ایک راستہ غازی پور کے درمیان بنا ہوا تھا۔ کیوں کہ یہ لوگ راستے کو سٹرک بھی کہتے ہیں۔ لہذا بعض زبانوں پر سارق پور کی بجائے سڑکپور نام بولا جانے لگا۔ اس طرح پنجابی لہجے میں سڑک کو شرک بھی کہتے ہیں۔ لہذا اب شرکپور بن گیا۔ چنانچہ اردو دائرہ معارف الاسلامیہ پنجاب یونیورسٹی لاھور میں آدینہ بیگ کے حالات میں شرکپور لکھا گیا ہے۔ اور ضمیمہ اوریئنٹل کالج میگزین فروری 1938 میں آدینہ بیگ کے حالات میں یہی شرکپور لکھا گیا ہے۔ چونکہ شرکپور کو شر کپور (شرک پور) بھی پڑھا جاسکتا تھا۔ جو اسلامی ذہن رکھنے والوں کو قطعا پسند نہ آیا۔ لہذا یہ نام شرقپور میں تبدیل ہو گیا۔ اور اب تک یہی نام معروف ہے۔ ازاں بعد اعلیٰ حضرت میاں شیر محمد شیرربانیؒ شرقپوری کی نیکی وپارسائی اور درجہ ولائیت میں بلند وبرتر مقام پانے کی وجہ سے اس نام کے ساتھ شریف کا اضافہ کر دیا گیا۔ اس طرح یہ نام شرقپور شریف کے نام سے جانا جانے لگا۔

یہ بات بھی بعض لوگوں کی زبان پر ہے کہ شاہان شرقی کی نسبت سے نام شرقپور رکھا گیا۔ یہ بات درست نہیں لگتی۔ کیونکہ مبارک شاہ شرقی تاریخ فرشتہ کے حوالے سے 804 ھ میں وفات پاتا ہے۔ تو جو لوگ اس کی بنیاد کا سن 808 ھ بتاتے ہیں۔ انہیں یاد رکھنا چاہیے جو 804 ھ میں مر جاتا ہے وہ 808 ھ میں دہلی میں سلطان محمود کے پاس کیسے آسکتا ہے۔ علاوہ ازیں سلطان محمود دہلی کا تحت حاصل نہیں کرسکا اور نہ ہی مبارک شاہ شرقی نہ ہی شاہ شمس الدین ابراہیم شرقی اور نہ ہی محمود شرقی۔ شاہان شرقی تو جون پور کے حکمران تھے۔ اور ان کے دور اقتدار میں تحت دہلی پر لودھی خاندان حکمران تھا۔ لہذا شرقیوں کا شرقپور میں آنا یا شرقپور کی آباد کاری میں کسی قسم کی سہولتیں فراہم کرنا تاریخی اعتبار سے درست نہیں ہے۔

ایک شادی کی تقریب کے موقعہ پر پرانی سبزی منڈی والے ڈیرہ حافظاں میں کچھ منچلے نوجوانوں نے مجرا کا اہتمام کیا۔ کنجریوں اپنے سازندوں کے ساتھ آگئیں۔ مجرا کے شوقین لوگوں کو خصوصی طور پر اطلاعیں دی گئیں۔ عشا کی نماز سے ذرا پہلے اعلی حضرت میاں شیر محمد شیر ربانیؒ کو بھی پتہ چل گیا۔ آپ مسجد میں تشریف لائے نماز عشا پڑھائی مقتدی تین صفوں میں تھے۔ مگر سب بوڑھے بابے شریف اور بھلے مانس تھے۔ نوجوان لڑکے ان میں بہت تھوڑے تھے۔ آپ نے سلام پھیرا اور کھڑے ہو گئے۔ فرمایا۔

بیلیو آپ شرقپور میں رہنے والے ہیں جو کچھ میں نے سنا ہے وہ آپ نے بھی سنا ہو گا۔ کہ آج باہر ڈیرے میں کنجریاں لائی گئی ہیں۔ جو رات بھر ناچیں گی اور گائیں گی۔ کیا یہ درست ہے۔
جی حضور! ایسا ہی ہونے والا ہے۔
تو کیا یہ کنجریوں کو بلانے والے اور ان کے ناچ گانے پر خوش ہونے والے آپ کے بیٹے بھتیجے نہیں۔
جی حضور! ہمارے ہی ہیں۔
تو کیا ان کی اس حرکت سے تمہارے شہر کی بدنامی ہوگی یا تعریف؟ یقینا سننے والے اس کام کو ناپسند کریں گے۔ میں تم سے یہ پوچھتا ہوں کہ تم شرقپور کر شرقپور شرقپور شریف چاہتے ہو یا شرقپور شریر ؟
حضور! شرقپور شریف دیکھنا چاہتے ہیں۔
تو سنو آج کے بعد آپ کا شہر شرقپور شریف ہے اسے اسی نام سے بولا اور پکارا جائے گا۔ آو ان کنجریوں والوں سے بات کریں۔۔۔۔یا جاو ان کو میرا پیغام دیدو کہ اگر وہ یہاں ناچیں گائیں گی تو ان کی ٹانگیں ٹوٹ جائیں گئی۔ اور وہ گونگی ہو جائیں گی۔ اور سننے والے بہرے ہو جائیں گے۔

لوگوں نے یہ پیغام جا کر دیدیا۔ اس پیغام کو کنجریوں نے بھی سنا اور کنجریوں کو لانے والوں نے بھی۔ کنجریوں کے دلوں میں ایسا رعب پڑا کہ انہوں نے یہ پیغام سنتے ہی اپنے گھنگرو اتار ڈالے۔ علاوہ ازیں سننے والوں کے بہرہ ہونے کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی۔ بیویوں نے اپنے خاوندوں کو جانے سے روک لیا۔ ماوں نے اپنے بیٹوں کو نہ جانے دیا۔ اور تماش بیں ویسے ہی سہم گئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مجرے کا اکھاڑا قائم نہ ہو سکا۔ اس دن کے بعد شرقپور کا نام شرقپور شریف ہر زبان پر سجنے لگا۔ آج اگر آپ کے خط پر شرقپور شریف نہ لکھا ہو تو یہ زیادہ امکان ہے کہ وہ خط شرقپور خورد میں چلا جائے اور شرقپور شریف لکھا گیا ہے تو وہ یقینا اسی شرقپور شریف میں آئے گا۔۔ گویا کہ شریف اس بستی کی ایک پہچان بن گئی ہے۔

گورو گوبند سنگھ (دسمبر 1666 تا اکتوبر 1708) جو کہ سکھوں کے دسویں گرو تھے کے دور میں سکھ ادھر حملہ آور ہوتےتھے۔ مگر اس بستی کے جیالے اور بہادر نوجوان ان کی ایک نہ چلنے دیتے تھے۔ اردگرد کے دیہاتوں کے ہندووں نے اس بستی کو زیادہ محفوظ سمجھا تو انہوں نے بھی ادھر کا رخ کیا۔ یہ لوگ دکانداری کرنا جانتے تھے۔ انہیں پرانی سبزی منڈی والے دروازے کے قریب بائیں جانب رہنے اور مکان بنانے کی اجازت دی گئی۔ اس وجہ سے اس گلی کا نام کھتریاں والی گلی یا چنگڑ محلہ مشہور ہو گیا تھا۔ ہندووں سے قبل شیخانے ،ملکانے اور ملوانے بھی آچکے تھے۔ ہندووں کے بعد خوجے اور شیخ بھی آنے لگے۔ یہ لوگ بھی دوکانداری کے پیشہ سے منسلک تھے۔ ہند سودی کاروبار بھی کرتے تھے ان کی دیکھا دیکھی شیخ اور خوجے بھی اس دھندے میں ملوث ہو گئے۔ سودی کاروبار کرنے والوں نے یہاں کے اکثر باسیوں سے زمینیں ہتھیا لیں۔ اس طرح وہ بھی زمیںوں کے مالک بن گئے۔ اسی لئے اعلیٰ حضرت میاں شیر محمد رحمتہ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ ـمسلمان دے مسلمان اور بے ایمان دے بے ایمان۔ اس بات پر اکثر لوگوں نے سودی کاروبار چھوڑ دیا تھا۔

اکثر بزرگوں کی مصدقہ روایات کے مطابق شرقپور کا یہ قدیم ساحلی علاقہ ابتدا سے ہی جنت نظیر ہے۔ سبزہ میں لپٹا ہوا شاداب اور زرخیز اس لیے یہ بڑی تیزی سے تمدنی حثیت اختیار کرتا چلا گیا۔ چنانچہ 1747 عیسوی کے قریب یہاں مختلف قوموں اور قبیلوں کے ہنر مند، دستکار، کاروباری لوگ آئے، صنعتی، روحانی، دینی، معاشی ومعاشرتی غرض ہر طرح سے ترقی اور خوشحالی آئی۔ دینی اداروں کی رونق بڑھی اور شرقپور ہر لحاظ سے ایک مرکزی مقام بن گیا۔
بیرونی علاقہ جات سے وارد ہونے والے مذکورہ بالا مشاہیر کے علاوہ چند سالوں کے اندر اندر اور بھی اللہ والے یہاں تشریف لاتے گئے جن میں حضرت میاں محمد اسحاق قادریؒ اور ان کے بھائی حافظ محمد یعقوبؒ چشتی، حضرت سید گلاب شاہ قادریؒ اور ان کے بھائی حضرت سید جیونؒ شاہ چشتی، حضرت میاں غلام رسول قصوری اور ان کے بھائی حضرت میاں جلالؒ دین چشتی، حضرت میاں عبدالحکیم ؒ چشتی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
قاضی غلام مرتضیٰ قادری مجذوبؒ، حضرت محمد ہاشم نوشاہی سکھانوالےؒ، حضرت میاں ھرنی شاہ صاحبؒ کے بیٹے حضرت میاں معصوم شاہ اور حضرت میاں الہی بخش نوشاہیؒ، حضرت حافظ میاں برہان الدینؒ، حضرت بابا محکم الدین مجذوبؒ، حضرت میاں محمد برخودارؒ ایسے بلند مرتبہ اولیا اللہ خاص شرقپور میں پیدا ہوئے ان برگزیدہ نفوس کے علمی اور روحانی کارنامے ہمارے ملی تاریخ کا روشن باب ہیں۔
حضرت میاں شیر محمد شرقپوریؒ آپ کے اسلاف کرامؒ اور خلفائے عظامؒ نے شرقپور کو مخزن نور اور شفا الملت حضرت میاں نیک محمد نوشاہیؒ نے اپنے فیوض و برکات سے بھر پور کردیا۔ گویا یہاں کی ہر پاکیزہ شخصیت نے اپنی فیض رسانی سے شرقپور کو شریف بنا دیا ہے۔ اور یہ شرافت شرقپور شریف کی تاریخی عظمت کا طرہ امتیاز ہے۔ اگرچہ مغل فرمانرواوں خصوصا اورنگزیبؒ عالمگیر نے اس علاقے کی ترقی اور عوامی زندگی کی خوشحالی کے لئے بہت کچھ کیا۔ لیکن شرقپور شریف کو عالم اسلام کا عظیم دینی اور تہذیبی مرکز بنانے کا اصل سہرا اولیاکرامؒ اور قدیم علمائے عظامؒ کے سر ہے جو ملت اسلامیہ کے سچے خیر خواہ اور دردمند تھے. 1557 عیسوی میں یہاں میعاری دارالعلوم قائم کئے گئے۔ جن میں علوم اسلامی اور فنون عملی کی تعلیم دی جاتی تھی۔۔ مقامی طلبہ کے علاوہ سینکڑوں غیر مقامی طلبا بھی درس ںظامی کے مروجہ نضاب کے مطابق ان میں تعلیم حاصل کرتے تھے۔۔ نصاب میں تاریخ، ریاضی، جغرافیہ، ہندسہ اور منطق وفلسفہ کے مضامین شامل تھے۔ ایک مدرسہ کے بانی ومہتمم مولانا محمد وارث گجر خاںدان کے مورث اعلیٰ تھے۔ دوسرے مدرسے کے بانی حضرت حافظ محمد جیؒ تھے۔ یہ مدرسہ جامعہ ٹاہلی والی میں قائم تھا۔۔ بیرونی طلبہ کے وظائف اور یومیہ اخراجات متعلقہ رہائش وخوراک وغیرہ بانیان و متولیاں مدرسہ و مسجد کے ذمے تھے۔ حافظ محمد جمال اور ملک محمد وارث کے خاندانی بزرگ ان مدراس کے معاونین میں شامل تھے۔ جہاں سے سینکڑوں حفاظ، قرا، علما، مبلغین اور مجاہدین تربیت پاکر اشاعت اسلام کے لئے دنیا میں پھیل گے ۔ اس دور میں بہت سی تبلیغی تحریکیں وجود میں آئیں جن کی کوششوں سے معاشرے میں اسلام فکر بیدار رہی اور لوگوں میں دینی شعور غالب رہا۔

شرقپور کے اردگرد غیر مسلموں اور سکھوں کے قلعے تھے جن میں ان کی بودوباش تھی۔ علاقے میں مسلمانوں کی تیزی سے بڑھتی ہوئی ترقی اور خوشخالی انہیں گوارا نہیں تھی کہ کسی نہ کسی صورت میں وہ بھی شرقپور کے اندر آباد ہو جائیں اور مسلمانوں کی مرکزی اور اتحادی طاقت کو نقصان پہنچائیں۔ لیکن مسلمانوں کے غیر مسلموں کا اپنی سو فیصد آبادی کے اندر رہائش کر لینا کیسے گوارا ہو سکتا تھا۔ اس لئے اپنی اجتماعیت اور مرکزیت کو برقرار رکھنے کے لئے مسلم عمائدین نے مشترکہ لائحہ عمل اختیار کیا۔ عسکری تنظیمیں قائم کیں جن کے سربراہ حافظ محمد جمالؒ، حافظ محمد یعقوبؒ، حضرت سید عبدالقادر ثانی کیمیا نظرؒ اور شاہ محمد مراد نوشاہیؒ تھے۔ سینکڑوں کی تعداد میں علما مجاہدین اور سرفروش اپنے حصار امن یعنی شرقپور کی حفاظت کے لئے مامور ہوئے۔ جتنی زیادہ اسلام کی تبلیغ ہوتی تھی۔ غیر مسلم مخالفین اتنی ہی عداوت کی آگ بھڑکاتے تھے۔ چنانچہ علاقہ شرقپور کی حدود میں حق وباطل کے کئ معرکے بپارہے اور کتنے ہی فدائیان اسلام نے شہادت کے جام نوش کئے۔ ان شہیدوں کی قبریں شرقپور میں چاہ ماڑی والا کے قریب اور مغرب میں حضرت خواجہ میاں محمد سعیدؒ کے روضہ مبارک کے قریب موجود ہیں۔ جن پر زائرین چراغ روشن کرتے اور عقیدت کے پھول نچھاور کرتے ہیں۔ دو ایک قبریں پرانی سبزی منڈی کے ڈیرے میں بھی تھیں۔ (اگست 13، 2015 کو یہ ڈیرہ ڈی سی او شیخوپورہ کرن خورشید کے حکم پر اسسٹنٹ کمشنر شرقپور نورش صبا کی موجودگی میی مسمار کر دیا گیا۔)اس کے علاوہ کچھ قبریں ملکانہ دروزہ کے باہر والے ڈیرے میں بھی تھیں، لیکن اب نہیں ہیں۔ ادھر حافظ محمد جی حالات پر گہری نظر رکھے ہوئے تھے۔ آپ اپنی صوفیانہ اور عالمانہ فکر لئے سکھوں میں بلا خوف وخطر چلے جاتے۔ وعظ فرماتے اور دعوت اسلام پیشں کرتے۔ آپ کی کوشش کا ایسا گہرا اثر مرتب ہوا کہ سینکڑوں غیر مسلموں نے اسلام قبول کر لیا۔ اسی طرح حضرت شاہ محمد مراد نوشاہی نے اپنی صوفیانہ اور موحدانہ تعلیمات سے کامیابیاں حاصل کیں۔ من حیث المجموع علما اور اصفیا کی محنتوں سے غیر مسلموں کی ایک کثیر تعداد حلقہ بگوش اسلام ہوگئی۔ ان فتوحات سے مسلمانوں کے اعلیٰ وقار میں اضافہ ہوا۔ قلعہ لال سنگھ کے سکھ بڑی تعداد میں مسلمان ہو گئے اور حافظ محمد صاحبؒ کو مجبور کرکے اپنے گاوں لے گئے۔ چنانچہ عمر کا باقی حصہ آپ نے وہیں وعظ اور تبلیغ میں گزاردیا۔ وہیں وفات پائی اور وہیں دفن ہوئے۔ آپ کا مرقد منور قلعہ لال سنگھ گاوں کے وسط میں ہے۔

اس زمانے میں شرقپور میں ترقی کی رفتار مزید بڑھ گئی تھی۔ سینکڑوں مکانات تعمیر ہوگئے تھے۔ لیکن عام طور پر ایک منزلہ اور کچے تھے۔ صرف خواص و امرا کی رہائش گائیں پکی اور چند منزلہ تھیں۔ تب یہاں کی سرکردہ شخصیات نے سوچا کہ آبادی کی حفاظت کا بندوبست کیا جائے۔ کیونکہ غیر مسلموں کے بیرونی حملوں کو دیکھا جا چکا تھا۔ اس زمانے میں آبادیوں کے گرد دیواریں اور فصیلیں تعمیر کرنے کا رواج بھی تھا۔ جنہیں پنجابی میں کوٹ کہتے ہیں۔ چنانچہ تجویز یہ طے پائی کہ لاھور اور قصور کی طرز پر شرقپور کے اردگرد حفاظتی دیوار بنا دی جائے۔ اور دروازے تعمیر کر دیئے جائیں۔ جو ضرورت کے وقت کھولے جائیں اور بند کیے جائیں۔ چنانچہ کچھ عرصے میں دیوار بنا دی گئی اور اس میں دروازے رکھے گئے۔ آپ ان دروازوں کی تفصیل ہماری ویب سائٹ پر شرقپور کے تاریخی دروازوں والے سیکشن میں پڑھ سکتے ہیں۔ دیوار اور دروازوں کے ساتھ ساتھ باہر کی طرف کشادہ راستہ چھوڑ دیا گیا۔ (سرکلر روڈ اسی کا نام ہے)۔ ہر دروازے پر ایک پہرے دار مقرر تھا۔ آنے جانے والوں کے لئے دروازوں میں کھڑکیاں بنائی گئی تھیں۔ ملکانہ دروازہ ملک محمد وارث کے نام سے منسوب ہوا۔ گوجرانوالہ دروازہ گجر علما اور مسجد گجرانوالی کی نسبت سے مشہور ہوا اب اسے نیا دروازہ کہا جاتا ہے۔ روشنائی دروازہ کے باہر ایک سبزی منڈی تھی اس لیے اس کو سبزی منڈی والہ دروازہ کہا گیا۔ لاہوری دروازہ کی کچی دوروازی کہتے تھے۔ اب یہ دروازہ حضرت میاں ہرنی شاہ مشہور ہے۔ روشنائی دروازے کے باہر ایک بازار بنایا گیا تھا۔ جسے لنڈا بازار کہتے تھے۔ ضروریات زندگی سے متعلق ہر چیز یہاں دستیاب تھی۔ کاروباری لوگ گوجرانوالہ اور لاھور سے سامان تجارت خرید کر رتھوں، یکوں، بیلوں، اونٹوں، گھوڑوں، خچروں اور بیل گاڑیوں کے ذریعے یہاں لاتے تھے اور یہاں سے مختلف قسم کی اجناس مشلا گندم، جو، جوار، باجرہ، مکئ، چاول، سبزیاں، سبز چارہ اور دوسری چیزیں شہروں تک لے جاتے تھے۔

یہاں یہ ذکر کر دینا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ قدیم دور میں شرقپور کے وسیع و عریض شاداب علاقے میں جنگلی حیات کی بھی بہتات تھی۔ نیل گائے اور ہرن عام پائے جاتے تھے۔ مرغابی، تیتر، بٹیر اور بہت دوسرے قابل شکار پرندے بے شمار تھے۔ اس لیے مغل شہزادے اور دیگر امرا اس علاقے میں شکار کی غرض سے آتے تھے۔ کئی ایک کا تو یہاں دنوں تک قیام رہتا تھا۔ نواب بہادر خان اکثر یہاں آتے رہتے تھے۔ بلکہ ان کی رہائش گاہ ملکانہ دروازہ کے اندر بائیں طرف کے محلے میں بتائی جاتی ہے۔ بہادر خان نے شرقپور میں ایک مسجد اپنی یادگار چھوڑی ہے جو مسجد خان بہادر والی کے نام سے محلہ حکیم گڑھی میں موجود ہے۔ تاریخ پنجاب (کہنیا لال) کے حوالے سے نواب زکریا خاں اور نواب سرفراز خان (پسران نواب عبدالصمد خان والی ملتان) کی یہاں آمد اور قیام کا ثبوت ملتا ہے۔ آدینہ بیگ خان دو آبہ بست جالندھر کا ناظم تھا۔ چنوں ارائیں کے گھر شرقپور میں پیدا ہوا تھا۔ یہیں اس نے پرورش پائی۔ لیکن علاقائی تاریخ میں اس کا کوئی قابل ذکر کارنامہ نہیں ہے۔ ان سیاسی اور سماجی شخصیتوں کی اس علاقے سے غیر معمولی دلچسپی سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ انہوں نے شرقپور کی تعمیر و ترقی اور عوام کی فلاح وبہبود کے کارناموں میں ضرور حصہ لیا ہو گا۔

سترھویں صدی عیسوی کے آخر میں غالبا 1690 میں ایک دفعہ پھر شرقپور کے محلوں، گلیوں اور بازاروں کی تزئین نو اور ترتیب کا کام مکمل کیا گیا بازاروں کو سیدھا کیا گیا اور محلوں کو موجودہ شکل و صورت میں بسایا گیا۔ پہلے سے تعمیر شدہ دروازوں کو پانی جگہ رہنے دیا گیا اور آبادی کی تزئین ترتیب بھی ہوگئی۔ اسی طرح شرقپور شریف کی خوشنمائی میں اضافہ ہوا۔ جب اندرونی آبادی کے بازاروں میں رونق آگئی تو لنڈا بازار کی اہمیت کم ہو گئی۔ حتی کی ایک زمانے میں یہ بازار خستہ حالی کا شکار ہو گیا۔ اب پھر اس بازار کی رونق پلٹ رہی ہے۔ نئی دکانیں سج رہی ہیں اہل قصبہ چاہیں تو اس تحصیل روڑ کو دوبارہ لنڈا بازار سے موسوم کر سکتے ہیں۔ جو اس کا تاریخی نام ہے۔

شرقپور کے چاروں طرف قدیم قبرستان ہیں ان کے پھیلاو اور قبروں کی ساخت سے یہاں کی تہذیبی اقدار اور تمدنی عمرانیاتی ماحول کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ آبادی کی مشرقی اور جنوبی اطراف میں دو چھوٹے چھوٹے قدیم قبرستانوں کا بھی سراغ ملتا ہے جو اب ناپید ہو چکے ہیں۔ ان کے مشاہدہ سے بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ قصبہ صدیوں پیلے کا آباد چلا آتا ہے۔ قصبہ کی قدیم عمارات جس سطح زمین پر تعمیر ہوئی ہیں وہ ہموار نہیں ہے۔ جس سے دریائے راوی کی قدیم گزرگاہ کا ہونا ثابت ہوتا ہے۔ یہاں کی آب وہوا مجموعی لحاظ سے گرم مرطوب ہے۔ پانی شیریں، شفاف اور خوش ذائقہ ہے ۔ دسمبر جنوری کے مہینوں میں سخت سردی ہوتی ہے۔ اور مئی کے وسط سے جولائی اگست تک بڑی گرمی پڑتی ہے۔ درمیانی رات خوشگوار ہوتی ہے۔ موسم بہار میں (جو مارچ اور اپریل میں آتا ہے۔) پورا علاقہ رنگ ونگہت سے بھر جاتا ہے۔

۔1699 عیسوی میں یہاں مغلیہ حکومت کے ماتحت قاضی عدالتیں قائم ہوئیں جس کا ثبوت قاضی خاندان کی دستاویزات سے ملتا ہے۔ ان دنوں قاضی ملا مولوی محمد صاحب (وہ قاضی نورالدین کے پوتے اور قاضی عبدالاحد کے بیٹے تھے۔) قاضی القضاتہ کے عہدے پر فائز تھے جب کہ ان کی نائب عدالت میں قاضی روشن الدین اور حافظ محمد مستقیم محرر دائمی ؒ تھے۔ اسلامی قوانین کو بالادستی حاصل تھی۔ قاضی مولوی محمد کے بعد ان کے بیٹے قاضی عبدالاحد پھر قاضی عبدالقادر اور قاضی ملا محمد مراد اور پھر قاضی شیخ محمد اور قاضی سعداللہ مسند قضاہ کی زینت بنتے رہے۔ موخر الذکر دونوں باپ بیٹا عظیم خطاط ادیب اور انشا پرداز بھی تھے، نادر روزگا انسان تھے اور انسانیت کے لئے بڑے مفید کام کرگئے۔ قاضی عدالتوں کانظام اورنگ زیب عالمگیر کے بعد کئی سالوں تک رائج رہا یہاں تک کہ برصغیر میں انگریزی اقتدار کی عمل داری شروع ہوگئی تب تمام عدالتی نظام گورنمنٹ برطانیہ کے ماتحت ہو گیا۔

۔1872 عیسوی میں میونسپل کیمٹی شرقپور کا قیام عمل میں لایا گیا یوں قصبے کی صفائی، روشنی اور حفظان صحت کا بندوبست ہوا۔ اسی دوران قانون کی بالادستی قائم رکھنےاور عوام کی جان ومال کی حفاظت کی غرض سے پولیس چوکی قائم کی گئی۔ جس کی عمارت جامع مسجد ٹاہلی والی کے بالمقابل تھی۔
۔1880 عیسوی میں یہاں ایک ہی پرائمری سکول تھا۔ 1904 میں اسے مڈل سکو ل کا درجہ دیا گیا۔ ان دنوں محمد ثاقب یہاں کے ہیڈ ماسٹر تھے۔ شعروادب سے لگاو رکھتے تھے۔ خلیفہ عماد الدین ان دنوں انسپکٹر آف سکولز تھے۔ غالبا 1924 میں مڈل سکول کو ہائی سکول کا درجہ دیا گیا۔ جو اب گورنمنٹ پائلٹ سکینڈری سکول کے نام سے علاقے بھر میں معیاری تعلیم کا گہوارہ ہے۔
۔1882 میں لنڈا بازار کے آخری حصے میں انگریزوں نے جو ذیل گھر تعمیر کیا ہوا تھا۔ اسے ہائی سکول کے غیر مقامی طلبہ کی رہائش گاہ (بورڈنگ ہاوس) بنا دیا گیا۔ اور پرائمری سکول کی جو اصل عمارت تھی اس میں سرکاری ہسپتال قائم کر دیا گیا۔ وہ اس وقت بھی سول ڈسپنسری کی صورت میں قصبہ کے اندر موجود ہے۔ پھر ہسپتال کی نئی عمارت اڈا گھاٹ سٹاپ کے قریب بنائی گئی جہاں ٹیلی فون ایکسچینج ہے اور اب اسے وہاں سے ختم کر دیا گیا جب سے شرقپور شریف میں تحصیل ہسپتال بنا ہے۔
۔1904 میں شرقپور ضلع لاھور کی تحصیل تھا۔ 1911 اور 12 میں شرقپور ضلع گوجرانوالہ میں شامل تھا۔ پھر جب 1922 میں ایک نیا ضلع شیخوپورہ بنا تو شرقپور کو تحصیل شاہدرہ میں منتقل کر دیا گیا۔ یہ ضلع شیخوپورہ کی سب تحصیل بنا اور اب تحصیل بن گیا ہے۔

پرانے زمانے میں شرقپور کا لاھور کے ساتھ سفری رابطہ تین مختلف راستوں سے تھا ایک مختصر پیدل راستہ موضع ڈھانہ کے پتن سے کشتی پار کرکے سیدھا نیاز بیگ کی طرف سے تھا۔ دوسرا کچہ راستہ پرج اٹاری اور سگیاں کی طرف سے تھا۔ تیسرا کشادہ سرکاری راستہ بیگم کوٹ کی طرف سے تھا۔ جس کے آگے دریائے راوی پر کشتیوں کے پل پر سے لوگ گزرتے تھے۔ اس راستےپر سفر عموما یکوں، تانگوں، رتھوں اور بیل گاڑیوں کے ذریعے ہوتا تھا۔ پیدل راستوں پر اونٹ، گھوڑے اور خچر بھی کام آتے تھے۔ انگریزوں نے اپنے دور میں سرکاری راستے کی فرش بند (سولنگ) کروادی یہی سڑک جڑانوالہ روڈ ہے۔ 1932 میں ایک ہندو نے نندہ بس کے نام سے یہاں سے پرائیوٹ ٹرانسپورٹ کا اجرا کیا تھا۔ روزانہ ایک بس لاھور سے شرقپور آتی جاتی تھی۔ قیام پاکستان کے بعد لاھور ریخان ٹرانسپورٹ کمپنی کی بسیں اس روٹ پر چلتی رہیں اب زرائع آمدورفت کی کوئی کمی نہیں۔

پاکستان کی تحریک آزادی میں شرقپور کے نوجوانوں نے ایک یادگار اور دلیرانا کردار ادا کیا۔ شرقپور کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ برطانوی حکومت کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک میں سب سے پہلے نوجوانوں کا جو اسکواڈ پکڑا گیا تھا ان کا تعلق شرقپور سے تھا۔

آزادی وطن اور تحریک پاکستان میں ہر اس شخص کو شامل سمجھا جا سکتا ہے جس نے پاکستان کے لیے کوئی بھی کام کیا ہو۔ پاکستان کے لیے زندہ باد کا نعرہ لگایا ہو۔ پاکستان یا مسلم لیگ کا پرچم اٹھایا۔ کوئی اشتہار یا بینر لگایا یا ووٹ دیا۔ یہ سب کام شرقپور کے نوجواںوں نے کیے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کی تاریخ میں یہاں کے لوگوں نے ایک اہم باب بھی رقم کیا ہے جس سے اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ تحریک پاکستان میں شرقپور شریف کی شرکت بھرپور جذبات کی حامل ہے۔ شرقپور شریف میں یونینسٹ پارٹی کا زور تھا۔ یہاں مسلم لیگ کا نام لینا یہاں کی سیاست سے دشمنی مول لینا کے مترادف تھا۔ لوگوں کے دل چاہتے تھے کہ پاکستان کے حق میں آواز اٹھائیں مگر ان کے لبوں پر ایک خوف مسلط ہو جاتا تھا۔ آخر یہ سکوت کی لہریں ٹوٹیں نوجوانوں نے آستینیں چڑھا کی گلی گلی اور محلہ محلہ میں مسلم لیگ زندہ باد، پاکستان زندہ باد کے نعرے بلند کیئے۔ یہ جرات ان نوجوانوں میں کیسے آئی اس کے پس منظر میں شرقپور شریف کے بزرگوں کا کردار ہے۔ جب 1946 کے انتخابات کی تیاریاں ہورہی تھییں تو حضرت قائداعظم ؒ نے سوچا کہ برصغیر کے مشائخ کو اعتماد میں لئے بغیر مسلم لیگ کی کامیابی غیر یقینی ہے۔ چنانچہ کشمیری رہنما چودھری غلام عباس کو ہمراہ لے کر علی پور سیداں میں پہنچے اور پیر سید حضرت جماعت علی شاہ صاحبؒ سے ملاقات کی۔ عرض کیا۔ 1946 کے انتخابات سے برصغیر پاک وہند کے مسلمانوں کے بہتر مستقبل کی تقدیر وابستہ ہے۔ اگر مسلمانوں نے بیداری اور ہوشیاری سے کام نہ لیا تو ایک نہایت اہم موقعہ ان کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔ آپ کا تعلق چونکہ ملک کے گوشے گوشے کے مسلمانوں سے ہے اور آپ کی ہربات سر آنکھوں پر اٹھائی جاتی ہے۔ ہم آپ سے اسی عظمت اور مرتبے کے حوالے سے عرض کرتے ہیں کہ مسلم لیگ کی کامیابی کے لئے دعا اور تعاون فرمائیں۔ پیر صاحب نے وعدہ فرمایا۔ آپ نے اپنے مریدین سے کہا کہ جو شخص مسلم لیگ کو ووٹ نہیں دے گا ہم اس کا جنازہ نہیں پڑھیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ نے مختلف سجادہ نشین حضرات کو خطوط بھی لکھے اور خود بھی ملے۔ جن میں پیر آف مانکی شریف (سید امین الحسنات) سرفہرست ہیں۔ اس فہرست میں حضرت قبلہ ثانی صاحب میاں غلام اللہ رحمتہ اللہ علیہ کا نام بھی شامل تھا۔ اب آپ کے اہتمام سےملکانہ دروازہ شرقپور شریف میں ایک عظیم الشان جلسہ ہوا جس کی صدارت حضرت قبلہ ثانی صاحبؒ نے فرمائی اور معزز مہمان جو باہر سے تشریف لائے ان میں

راجہ غضنفر علی
شیخ کرامت علی
چوہدری روشن دین بھنگو
صوفی عبدالحمید
میجرعاشق حسین
چودھری محمد حسین چٹھہ
ملک محمد انور
میاں افتخار الدین
اور دیگر عظیم رہنما شامل تھے

جلسہ کا آغاز دن کے 10 بجے ہوا اور اڑھائی گھنٹے تک اس کی کاروائی جاری رہی۔ لوگ آخر وقت تک جم کر بیٹھے رہے۔ اس جلسہ میں 50 ہزار روپے کی خطیر رقم کی ایک تھیلی بھی مسلم لیگ کو پیش کی گئی۔ جلسے کے سارے اخراجات حضر قبلہ ثانی صاحب نے خودبرداشت کیے۔ اب مسلم لیگ کو شرقپور شریف میں ایک پلیٹ فارم پر کام کرنے کا موقع مل گیا۔ حضرت قبلہ ثانی صاحبؒ اس کے سرپرست تھے ۔ اس جلسے کے بعد چھوٹی بڑی میٹنگیں اکثر ہوتی رہیں۔ اور ضلعی اجلاس میں آپ شرکت فرماتے رہتے۔ بلکہ آپ نے پنجاب میں ایک بھرپور دورہ کیا۔ اس سلسلے میں آپ کے لاھور، امرتسر، فیروز پور، لائل پور (فیصل آباد) سرگودھا، جھنگ، میانوالی، سائیوال (سابقہ منٹگمری)، ملتان، بہاولپور کے دورے کیے جو بڑی اہمیت کے حامل تھے۔ آپ کی یہ کوشش خوب رنگ لائی۔ اللہ نے مسلم لیگ کو کامیابی عطا فرمائی اور مخالفین کے منہ کھلے کہ کھلے رہ گئے۔

اس سے قبل مسلم لیگ کی مقامی تنظیم معرض وجود میں آچکی تھی۔ جس کے صدر میاں محمد اسماعیل کابلی تھے۔ شیخ محمد رفیق بجاج، جںرل سیکرٹری حاجی ظہیر نیاز بیگی اس تنظیم کے روح رواں تھے۔ اسی دوران مسلم لیگی نیشنل گارڈ کی بھی تشکیل ہو چکی تھی۔ اس کے صدر میاں فقیر اللہ کھراونہ، نائب صدر شیخ محمد رشید بجاج اور سینئر نائب صدر میاں محمد رفیق کھراونہ تھے۔ جب کہ جنرل سیکرٹری حاجی فضل احمد مونگا تھے۔ ہر ہفتے کے بعد ان کے اجلاس ہوتے اور کاروائی کا باقاعدہ ریکارڑ رکھا جاتا۔ چنانجہ ایک بار شیخوپورہ کی ڈسٹرکٹ مسلم لیگ کے بعض زعما یہاں تشریف لائے تو اس ریکارڈ کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ اور پھر پورے ضلع کی تنظیموں کو ان کی تقلید کرنے کی ہدایت کی۔

مسلم لیگ نیشنل گارڈ شرقپور کے سارے ممبران نویں اور دسویں جماعتوں کے طالب علم تھے۔ جوان جذبوں اور گرم خون کے مالک تھے۔ عسکری تربیت حاصل کرنے کے لیے ایک ماہر استاد ملک محمد ابراہیم رکھا گیا اور ان کی معاونت معراجدین سابق ریٹائرڈ فوجی محلہ نبی پورہ نے بھی کی۔ ان نوجوانوں نے تلوار چلانا، بلم کے گھاو لگانا، لاٹھی اور چھڑی کا استعمال سیکھا۔ گتکہ اور چاقوزنی میں خوب مہارت حاصل کی۔ یہ تربیت اس لیے ضروری سمجھی گئی کیونکہ اس بات کا زیادہ امکان تھا کہ اعلان پاکستان کے بعد جب انتقال آبادی ہوگا تو برے لوگ قتل وغارت گری جیسی وارداتیں کرنے سے نہیں چوکیں گئے۔ یہ نوجوان قریب کے دیہاتوں میں بھی جاتے اور تعمیر وطن کے لیے کام کرتے۔ پنجاب میں چونکہ خضر حیات ٹوانہ وزیر اعلیٰ تھے۔ اور یونینسٹ پارٹی کے بانیوں میں سے تھے وہ نہیں چاہتے تھے کہ پنجاب میں مسلم لیگ کامیاب ہو۔ چنانچہ ان کے ایما پر حکومت برطانیہ نے پنجاب مسلم لیگ کے سارے لیڈر گرفتار کر لیے۔ اور صوبہ بھر میں دفعہ 144 نافذ کر دی۔ اب حاجی ظہیر نیاز بیگی نے نیشنل گارڈ کے نوجوانوں میں ایک تازہ ولولہ پیدا کیا اور ان کےجذبات کو ابھارا کہ اہم دفعہ 144 کی خلاف ورزی کر کے اسے توڑنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے لیے میں آپ پر تین باتیں واضح کر دینا چاہتا ہوں۔

اول ہم نے شرقپور شریف سے جا کر لاھور میں گرفتاری دینی ہے۔ اگر ہمیں حکومت گرفتار کر لیتی ہے اور ہماری تحریک خدانخواستہ فیل ہوجاتی ہے تو ممکن ہے ہمیں پھانسیاں دی جائیں یا عمر قید کی سزا دی جائے۔ جس طرح 1857 میں ہوا تھا۔ تو اس صورت میں اگر آپ نے کمزوری دکھائی اور گورنمنٹ سے کہا ہمیں معافی دی جائے کہ ہم بچے ہیں اور ہمیں ورغلایا گیا تھا۔ تو یاد رکھیں آپ ایسی بات نہیں کریں گئے۔
دوم ۔ متحدہ پنجاب سے ہمارا یہ جتھہ جارہا ہے۔ عین ممکن ہے کہ گورنمنٹ حکم دے کہ ان سب کو گولیوں سے بھون دو۔ تو گولی چھاتی پر کھانی ہے۔ یہ نہیں کہ پیٹھ دکھا کر بھاگ جاو۔
سوئم ۔ ہمارے اس جتھے پر حکومت ہندووں یا سکھوں کے کسی جتھے کوشہ دے کر حملہ کروادے اور ہمیں قتل کروادے۔

یاد رکھیں ہم قربانی دینے جارہے ہیں۔ ہمیں مندرجہ بالا صورتوں میں کوئی بھی صورت پیشں آسکتی ہے۔ اس لیے اگر آپ میں اتنی ہمت ہے تو اس کے لیے آپ اچھی طرح اپنے دلوں کو ٹٹول لیں۔ آپ نے بس ہمت اور جرات کا مظاہرہ کرنا ہے۔ سب نوجوانوں نے حاجی ظہیر نیاز بیگی کی ان باتوں پر کہا اللہ ہماری مدد کرے گا۔ ہم اس کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔

پروگرام کے مطابق یہ قافلہ چل دیا۔ کرائے پر ایک گاڑی لی جسے شہر سے ایک میل باہر کھڑا کیا گیا اور ایک ایک دو دو کی صورت میں اس تک پہنچ گئے کیونکہ خطرہ تھا کہ پولیس سختی کر کے انہیں منتشر نہ کر دے۔ مسلم لیگ کا ایک جھنڈا ساتھ لیا۔ پھولوں کے ہار گلے میں ڈالے، دریائے راوی کو عبور کیا۔ مسلم لیگ کا جھنڈا گاڑی کے آگے لہرا دیا اور نعرے لگانا شروع کر دیے۔ اب گاڑی لوہاری دروازے میں کھڑی کی گئی اور دو دو کی ٹولیوں میں لائین بنا کر میو ہسپتال روڈ سے ہوتے ہوئے نسبت روڈ پر گئے۔ پھر یہاں سے لکشمی چوک پہنچے۔ جہاں اس وقت مسلم لیگ کا دفتر تھا۔ وہاں سے دریافت کیا گیا کہ ہم نے کیا کرنا ہے۔ وہ کہنے لگے ہمیں ابھی تک سول نافرمانی کی کوئی اطلاع نہیں ملی ہے۔ مگر یہ نوجوان تو بس گرفتار ہونے کی غرض سے آئے تھے۔ انہوں نے مال روڈ سے گزرتے ہوئے اسمبلی ہال کے سامنے جا کر مظاہرہ کیا۔ لیکن یہاں کسی نے ان نوجوانوں کع گرفتار نہیں کیا۔ حالانکہ یہ نعرہ بازی کرتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے۔ ان کے نعرے یہ تھے۔

نعرہ تکبیر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اللہ اکبر
لے کے رہیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پاکستان
پاکستان کا مطلب کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لاالہ الاللہ
پنجاب پولیس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مردہ باد
ٹوڈی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مردہ باد
انگریز وہمارا ملک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔چھوڑ دو

ان نوجوانوں کے ساتھ بہت سے دوسرے لوگ بھی شامل ہوتے گے۔ اور یہ سب مال روڈ سے نیلا گبند میں آئے اور پھر انار کلی میں داخل ہو گئے۔ انار کلی اس وقت چند مسلمانوں کی دوکانوں کے علاوہ ہندووں کا بازار تھا۔ انہوں نے اس جلوس کو دیکھا تو فورا دوکانیں بند کرنی شروع کر دیں۔ بمبے کلاتھ کے قریب پولیس گارڈ آئی اور انہیں گھیرے میں لے لیا۔ پھر گرفتار کر کے تھانے میں لے گئے۔ ان نوجوانوں میں بائیس افراد شامل تھے۔ جن کے نام درج ذیل ہیں۔ حاجی ظہیر ںیاز بیگی، شیخ محمد رفیق، شیخ منور علی، شیخ احمد علی، شیخ رنگ الہی، بابو محمد رشید، چراخ دین، شیخ فقیر اللہ، شیخ محمد رشید، محمد ابراہیم، ریاض حسین شاہ، حاجی فضل احمد، شیخ عبدالرشید، شیخ عبدالعزیز، شیخ نذیر احمد، صادق علی شاہ، شیخ بشیر احمد، شیخ ریاض احمد، شیخ فٖضل کریم، شیخ محمد لطیف۔

تھانہ کا انچارج سکھ تھا اور اے ایس آئی مسلمان تھا۔ تھوڑی دیر حوالات میں بند کیا پھر گاڑی میں بٹھا کر سنٹرل جیل فیروزپور روڈ میں لیجایا گیا۔ ان نوجوانوں نے رستے میں خوب نعرہ بازی کی۔ گاڑی میں بیٹھے ہوئے مسلمان تھانیدار نے شیخ رنگ الہی کے سینے پر ریوالور رکھ دیا۔ کہا چپ کرتے ہو یا ہمیشہ کے لیے چپ کروادوں۔ نوجوان نے چھاتی تان دی کہا مارو گولی ہم تو مرنے کے لیے ہی آئے ہیں۔ ہمت ہے تو اپنا شوق پورا کر لو۔ مگر کسی نے کوئی گولی نہ چلائی۔ اب اس نے اپنا ریوالور ہوسٹر میں رکھا اور نوجوان کو تھپکی دی اور کہا شاباش میں آپ کا حوصلہ دیکھنا چاہتا تھا۔ میں بھی مسلمان ہوں اور دعا گو ہوں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی کامیاب کرے۔ شرقپور شریف کے یہ نوجوان بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوئے۔ انہوں نے جس تحریک کا آغاز کیا تھا۔ وہ خوب پروان چڑھی۔ ملک کے گوشے گوشے میں ایسی گرفتاریاں ہونے لگیں۔ وہ ایسے قیدیوں کو گاڑیوں میں بھر کر لے جاتیں اور دور ویرانوں میں چھوڑ دیتں۔

سنٹرل جیل جہاں شرقپور کے نوجوان بند تھے وہیں مسلم لیگ کے بڑے بڑے لیڈر بھی بند تھے۔ جن میں نواب ممدوٹ، شیخ صادق حسن، شیخ کرامت علی (جو بعد میں وزیر بھی بنے) تھے۔ یہ سب نوجوانوں کے پاس آتے ان کے حوصلوں کی بلند رکھتے۔ نواب ممدوٹ نے وعدہ کیا کہ وہ ان نوجوانوں کی عظمت کو سلام کرنے کے لیے شرقپور شریف میں آئیں گے۔ جب پاکستان بن گیا اور نواب ممدوٹ پہلے وزیر اعلیٰ پنجاب بنے تو وہ واقعتہ شرقپور شریف میں تشریف لائے اور ایک گھنٹہ تک ان نوجوانوں کے درمیان میں رہے۔ اور پھر مسلم لیگ کی تنظیم کے عہدہ داروں سے بھی ملے۔
انہیں دنوں حضرت مولانا محمد بخش مسلم صاحب بھی اس تحریک کے تحت گرفتار ہو کر سنٹرل جیل میں آئے۔ وہ ان سب قیدیوں کو نمازیں اور جمعے پڑھاتے اور درس قرآن بھی دیا کرتے تھے۔ چونکہ ان کا تعلق روحانی اعتبار سے شرقپور شریف سے تھا۔ لہذا وہ شرقپور شریف کے ان نوجوانوں سے خصوصی محبت کا اظہار کرتے۔ انہیں تھپکیاں دیتے اور حوصلوں کو بلند رکھنے کی تلقین کرتے۔

حضرت قبلہ ثانی صاحب شرقپوریؒ حاجی فضل الہی مونگہ صاحب کے ساتھ ان نوجوانوں کی خیریت دریافت کرنے کیلئے آتے انہیں پھول اور تحفے اور پھلوں کی ٹوکریاں دی جاتیں۔ لاھور کے اکثر جیالے نوجوان بھی آتے، فروٹ، بسکٹ اور سگریٹ دے جاتے۔ ان نوجوانوں کے والدین بھی آتے انہیں دیکھ کر ان کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو بھر آتے۔ روزانہ جیل کے باہر ایک سہانا سماں بندھا رہتا تھا۔ ان نوجوانوں اور مسلم لیگ کے اکابرین کا پرعظمت کردار شرقپور شریف کی پیشانی کی چمک میں مزید اضافہ اس وقت کرتا ہے جب پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے حکومت سے کوئی مالی فائدہ حاصل نہیں کیا۔

شرقپور کو اپنے ایسے سپوتوں پر ہمیشہ ناز رہے گا۔
شرقپور کا تحریک پاکستان میں کردار، بذریعہ معلومات، حاجی فضل احمد مونگا، شیخ رنگ الہی نارگ، شیخ عبدالعزیز ریوڑی۔