یہ ایک سچا واقعہ ہے اور یہ کوئی غالبا اپریل 2007 کی بات ہے مجھ سے ایک یورپین جس کا تعلق چیک رپیبلک سے ہے نے اسلام کے بارے میں کچھ سوالات پوچھے اور میرا اس کے ساتھ مقالہ ہوا تھا جو کچھ یوں تھا۔
اس سے پہلے کہ میں ان سوالات و جوابات کا ذکر کروں میں آپ کو یہ بتاتا چلوں کہ اس یورپین کے ساتھ مجھے 5 سال کام کرنے کا تجربہ ہوا ہے اور وہ کوئی عام انسان نہیں ہے نہایت ذہین انسان ہے جس کو آپ ادھر ادھر کی باتوں سے مائل نہں کرسکتے۔ اس نے آبدوز انجینرنگ میں ماسٹرز کیا ہوا ہے اس کے علاوہ اسے چیک، رشین، جرمن، فرنچ زبانیں بھی آتیں ہیں اور تھوڑی بہت وہ عربی بھی سمجھ لیتا ہے۔ آپ اس سے دنیا کے کسی بھی ٹاپک پر بات کرلیں حتی کے پاکستان اور انڈیا کی سیاست کے بارے میں اس کا علم بے حد وسیع ہے۔
اس نے مجھ سے کچھ سوالات پوچھے تھے اور میں نے ان کے جوابات دیے تھے۔ ہوسکتا ہے آپ میرے جوابات سے اختلافات کریں مگر میں نے اس وقت اپنے کم علم کے مطابق جو جو ابات دیے تھے وہ درج ذیل تھے۔ اور میں یہ آپ کے ساتھ اس لیے شیئر کررہا ہوں کہ یہ ایک دلچسپ مقالہ تھا۔
آپ لوگ مسلمان سور کا گوشت کیوں نہیں کھاتے، محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے کیوں کھانے سے منع کیا؟
میرا جواب یہ تھا اس کی کئی وجہ ہیں جن میں اخلاقی اور سائنسی بھی ہیں۔ سب سے پہلے سائنسی وجہ یہ ہے کہ سور ایک ایسا جانور ہے جب وہ پیشاب کرتا ہے تو اس کے جسم میں سے یورین تقریبا 96 فیصد خارج نہیں ہوتی بلکہ وہ اس کے خون میں شامل رہتی ہے اس وجہ سے جب آپ اس جانور کو کاٹتے ہیں تو خلیج بشمول سعودی عرب کے ممالک جہاں نہایت گرمی ہوتی ہے اتنے گرم موسم میں اس جانور کا گوشت ایک گھنٹے کے اندر زہریلا ہونا شروع ہو جاتا ہے اور وہ کھانے کے قابل نہیں رہتا۔
تو اس نے فورا جواب دیا کہ مان لیا یہ بات سچ ہے مگر جب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بات سے روکا تھا تو اس وقت جدید ٹیکنالوجی نہیں تھی آج کل تو ڈیپ فریزر آگئے ہیں آپ اس کو فورا فریز کرلیں؟
تو میں نے اسے کہا کہ سائنس کے مطابق آپ چاہے سور کے گوشت کو فریز کرلیں اور اس کے بعد بھی آپ اس کو 100 ڈگری ٹمریچر پر پکائیں تو اس کا جراثومہ پھر بھی نہیں مرتا۔ اور یہی وجہ ہے کہ اس کا گوشت کئی قسم کی بیماریوں کا سبب بنتا ہے۔ یہ تو سائنسی وجہ تھی اب اخلاقی وجہ یہ ہے کہ سور دنیا میں واحد ایسا گندا جانور ہے جو اپنا پاخانہ خود کھاتا ہے۔ اور یہ اس حد تک بے غیرت ہے کہ اگر اس کی مادہ پر کوئی دوسرا سور سیکس کے لئے حملہ کرے تو یہ احتجاج نہیں کرتا اور یہی وجہ ہے کہ آج یورپ میں بے حیائی اتنی بڑھتی جارہی ہے اور یہ بات بھی سائنس سے تصدیق شدہ ہے کہ آپ جس جانور کا گوشت کھاتے ہیں کسی حد تک آپ میں اس کے خصلتیں آجاتی ہیں۔ اور ایک بار ایک عراقی نے مجھے یہ بات بتائی تھی کہ عراقی لوگ خاص طور پر بغداد میں رہنے والے سال میں کم از کم ایک بار اونٹ کا گوشت ضرور کھاتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا ماننا ہے کہ اونٹ کا گوشت کھانے سے انسان میں غیرہ (غیرت) آتی ہے۔ کیونکہ جب اونٹ اپنی مادہ کے ساتھ سیکس کررہا ہو اور آپ اس کے پاس کھڑے ہو کر دیکھ رہے ہیں تو اونٹ آپ پر حملہ بھی کرسکتا ہے۔ اس لیے عرب لوگ اس کو اور اس کی مادہ اونٹنی کو صحرا میں چھوڑ آتے ہیں اور جب وہ فارغ ہو جاتے ہیں تو پھر واپس لیے آتے ہیں۔
اور پھر میں نے اس سے یہ بھی کہا تھا کہ تمہاری اپنی الہامی کتاب بایبل میں بھی کئی جگہ سور کو کھانے سے منع کیا گیا ہے۔ اس پر وہ خاموش ہو گیا۔
دوسرا سوال اس نے مجھ سے یہ پوچھا تھا کہ جب آپ کا ماننا ہے کہ اللہ ہر جگہ موجود ہے تو پھر عبادت کے لیے مسجد جاننا کیوں ضروری ہے آپ گھر میں بھی نماز پڑھ سکتے ہیں۔؟
میرا جواب یہ تھا کہ اسلام ایک دین فطرت ہے جس میں زندگی کے ہر پہلو کو مدنظر رکھا گیا ہے حتی کہ انسانوں کے علاوہ جانوروں کے حقوق کے بارے میں بھی بتایا گیا ہے۔ اور انسانوں میں ایک اچھا معاشرہ تب ہی بنتا ہے جب آپ ایک دوسرے کے دکھ درد، خوشی غمی میں شریک ہوں۔ مسجد میں باجماعت نماز پڑھنے کے کئی فائدے ہیں ایک تو اس وقت امیری غریبی کا فرق ختم ہو جاتا ہے، امیر اور غریب ایک ہی صف میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ جیسا کہ حضرت اقبال نے فرمایا تھا
ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز
بندہ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہوئے
تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے
جب امیر اور غریب ایک صف میں کھڑے ہوتے ہیں تو امیروں میں بھی عاجزی آتی ہے اور ان کا تکبر ختم ہو جاتا ہے۔ دوسرا اس سے آپ روزانہ پانچ مرتبہ ایک دوسرے کو ملتے ہیں ایک دوسرے سے بات کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے حالات کے بارے میں جانتے ہیں اور آپ ایک دوسرے کی خوشی اور غمی میں شریک ہوتے ہیں اس چیز کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اس سے ایک پہلو ڈسپلن کا بھی نکلتا ہے کہ آپ وقت کی پابندی کے عادی ہو جاتے ہیں اور جب لائنیں بنا کر کھڑے ہوتے ہیں تو آپ میں ڈسپلن آتا ہے۔ اور جب آپ دن میں پانچ مرتبہ نماز پڑھتے ہیں تو عبادت کے علاوہ یہ ایک خود بہت بڑی ورزش ہے آپ جس طرح پانچ مرتبہ وضو کرتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں اس سے آپ میڈیکل سائنس کے مطابق بہت سے بیماریوں سے بھی محفوظ رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ جب آپ اجتماعی عبادت کرتے ہیں تو آپ دوسرں کو بھی اس چیز کی ترغیب دیتے ہیں دیکھنے والے آپ کو دیکھ کر متاثر ہوتے ہیں۔
تو اس کا جواب یہ تھا کہ ہاں یہ بات تو سچ ہے اس لیے آج یورپ میں ہم نے سائنس میں تو ترقی کرلی مگر ہم لوگ معاشرتی طور پر اکیلے ہو گئے ہیں حتی کے ہمیں تو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ ہمارے پڑوس میں کون رہ رہا ہے۔
ملک عثمان - شرقپور ڈاٹ کام