شرقپور کے کتب خانے

شرقپور شریف کو ایک علمی وادبی شہر کہا جاسکتاہے۔ یہاں کے علم دوست حضرات کے ہاں ان کے ذوق کی کتابیں ہیں۔ جوان کے ذاتی کتب خانوں کی زینت ہیں۔ کچھ کتب خانے کاروباری نقطہ نظر سے بنائے گئے ہیں۔ ان کتب خانوں میں زیادہ تر ناول ہوتے ہیں۔ اور بعض میں ایسی کتابیں بھی ہیں جو مخرب الاخلاق قسم کی ہیں۔ شرقپور شریف میں کتابیں فروخت کرنے والے کتب خانے مخص سکولوں کی کتابیں بیچتے ہیں۔ عام کتابیں نہیں۔ ہم یہاں ان کتب خانوں کا ذکر کرنا چاہتے ہیں جہاں سے علمی استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ یہ کتب خانے دو طرح کے ہیں۔ سکولوں اور کالجوں کی لائبریریاں اور ذاتی کتب خانے جو درج ذیل ہیں۔

نوٹ
درج میں دی گئی لائبریریوں کے علاوہ گورنمنٹ ایلیمنڑی سکول، گورنمنٹ پائیلٹ سکینڈری سکول، انڑکالج، کمرشل کالج، گرلز ہائی سکول اور گرلز ٹریننگ کالج کی لائبریریاں بھی موجود ہیں۔


یہ وہ کتب خانہ ہے جس کے لیے پہلی کتاب تفسیر حسینی اعلیٰ حضرت میاں شیرمحمد صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے خریدی اور وہ کتاب آپ کے مطالعہ میں اکثر رہتی تھی۔ اس کے بعد کتابوں کی آمد ورفت رہی۔ آمدورفت اس لیے کے آپ اکثر اپنی کتابیں دوسرے لوگوں کو دیدیا کرتے تھے۔ لہذا آپ کے وصال کے وقت آپ کے کتب خانے میں صرف اتنی کتابیں تھیں کہ ایک الماری کے نصف حصے میں رکھی جاسکتی تھیں۔ حضور قبلہ ثانی لا ثانی حضرت میاں غلام اللہ رحمتہ اللہ علیہ کو کتب بینی کا شوق لگا تو وہ اپنے ذوق کی کتابیں خریدنے لگے۔ مگر جب 1944 میں جامعہ حضرت میاں صاحب کی بنیاد رکھی گئی تو جامعہ کے لیے لائبریری ناگزیر ہوگئی۔ چنانچہ آپ نے نہ صرف نصاب کی کتابیں خریدیں بلکہ تفاسیر، احادیث، فقہ، تاریخ، تصوف، ادب لغت، صرف ونحو، منطق، ہندسہ، ریاضی، اصول حدیث واصول تفسیر کی کتابیں ملک اور بیرون ملک سے خریدیں اور جامعہ کی لائبریری میں وافر ذخیرہ کتب جمع کردیا۔ بیرون ملک کی عربی، فارسی اور اردو زبانوں کی کتابیں بھی شامل تھیں۔ اور پھر دن بدن اس کتب خانہ میں اضافہ فرماتے رہے۔ 1957 میں جب آپ کے وصال کے بعد جامعہ کا انتظام حضرت صاحبزادہ میں غلام احمد صاحب کے ہاتھوں میں آیا تو ان کتابوں میں تیزی کے ساتھ مسلسل اضافہ ہونے لگا۔
جب 1972 میں جامعہ حضرت میاں صاحب کو حکومت نے محکمہ اوقاف کے حوالے کردیا تو یہ کتب خانہ حضرت صاحبزادہ صاحب نے گھر میں منتقل کردیا۔ یہ کام اس عجلت میں ہوا کہ کتب خانہ بے ترتیب ہوگیا۔ اور پھر اسے ترتیب دینے کی توجہ نہ دی جاسکی۔
آج اگر کوئی کتابوں سے پیار کرنے والا اس کتب خانے کو دیکھے تو اس کی آنکھیں اشک بار ہوجائیں گی۔ یہ کتابیں کئی الماریوں میں دیمک کی خوراک بن رہی ہیں۔ کمروں کے فرش پر کتابوں کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ اور جو کمرے کبھی کبھار کھلتے ہیں۔ وہاں کی کتابیں گردوغبار سے اٹی پڑی ہیں۔ صرف وہ کتابیں ڈھب سے رکھی ہوئی ہیں جو صاحبزادہ حضرت میں غلام احمد صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے زیر مطالعہ رہتی تھیں۔ کسی زائر کو اگر ان کتابوں کی الٹ پلٹ کردیکھنے کا موقعہ ملے تو وہ حیران رہ جائے گا کہ اس کتب خانہ میں کس قد نایاب کتابیں پڑی ہیں۔ قلمی مخطوطے بھی ہیں۔ اگر ان کتابوں کی گنتی ہو تو یقینا دس بارہ ہزار سے کم نہ ہوں گی۔
موجودہ سجادہ نشین صاحبزادہ حضرت حافظ ابوبکر صاحب نے جب ماسٹر انور قمر صاحب کو یہ کتب خانہ دیکھایا تو وہ خود بھی اس بے توجہی سے پریشان تھے۔ فرمانے لگے۔ استاد محترم آپ ان کتب کی اس حالت زار پر یقینا ناخوش ہوں گے۔ مگر ہم بڑی جلدی اس کتب خانے کو ترتیب دینے والے ہیں۔
عرض کیا گیا۔ یہ کتابیں ترتیب اور حفاظت کی طلب گار ہیں۔
فرمانے لگے ہمیں اس کا احساس ہے ہما اولا ان سب کتابوں کو دھوپ لگانا چاہتے ہیں۔ دوسرے نمبر پر کتابیں جلد کروائیں گے اور تیسرے نمبر پر کیمیکل سپرے کروائیں گے۔ مزید یہ کہ ہم بڑی جلدی اس لائبریری کی ایک نئ عمارت تعمیر کرکے منتقل کرنے والے ہیں۔
سوال کیا گیا۔ آپ نے اس کے لیے کیا پروگرام بنایا ہے ؟
فرمانے لگے، فی الحال میرے ذہن میں ایک بڑا ہال تعمیر کرنے کا خیال ہے۔ جس میں چاروں طرف شیشے کی الماریاں ہوں گی۔ درمیان میں ایک بڑی میز اور اس کے گرد کرسیاں بچھائی جائیں گی۔ ایک طرف لائبریری آفس ہو گا۔ اور اس ہال کے اوپر دارالتحریر قائم کرنا چاہتے ہیں۔ جہاں تحقیقی کام کرنے کی ساری سہولتیں موجود ہوں گی۔
لائبریری افادہ عام کے لیے روزانہ مقرر اوقات میں کھلا کرے گی۔ روشنی ہوا اور پنکھوں کا معقول انتظام ہو گا۔
آپ یہ بھی عزم رکھتے ہیں کہ اس کتب خانہ کے ساتھ ایک مکتبہ بنایا جائے گا جہاں سے سنی مکتبہ فکر کی کتابیں دستیاب ہوسکیں گئ۔
اگر صاحبزادہ صاحب ایسا کرپائیں تو میاں صاحب کے شہر میں یہ ایک مثالی کام ہوگا۔ اللہ تعالیٰ صاحبزادہ صاحب کو وقت، ہمت اور توفیق عطا فرمائے۔

آپ ایک علمی شخصیت تھے۔ اکثر وقت کتب بینی اور مطالعہ میں گزارنے کا ذوق رکھتے تھے۔ ان کا یہی ذوق سینکڑوں ہزاروں کتابیں جمع کرلینے کا باعث بنا۔ اپنے علمی ذوق مطالعہ کی تسکین کی خاطر آپ نے ہندوستان، مصر، ترکی، لندن اور سعودی عرب سے سینکڑوں کتابیں منگوا کر اپنی لائبریری میں اضافہ کیا۔
آپ کے کتب خانے کی کتابوں کی تعداد دس ہزار سے اوپر بتائی جاتی ہے۔ جس میں تفسیر، حدیث، فقہ، تاریخ، اسما الرجال، فلسفہ، منطق، ریاضی، ہندسہ، یہاں تک کہ سائنس اور علم ہیت کے فنون پر مشتمل کتب موجود ہیں۔
کتابوں کا یہ وسیع ذخیرہ عربی، فارسی، اردو، پنجابی اور انگریزی زبانوں پر مشتمل ہے۔ بلکہ رہائش گاہ میں لنگر خانے کے اوپر والی منزل میں اس لائبریری کی کتابیں آہنی الماریوں میں رکھی گئی ہیں۔ سائنسی اصولوں کے مطابق لائبریری کی کتابوں کو ترتیب سے رکھنے کا کام شروع ہے۔ آج تک یہ کتب خانہ محض ذاتی استعمال کے لیے رہا ہے۔ مگر بعد میں اعلیٰ حضرت اپنے وفات کے آخری ایام میں اسے عام لوگوں کے استفادہ کے لیے بھی کھولنے کا ارداہ فرمارہے تھے۔ اگر اس کے دروازے عام لوگوں کے لیے کھل گئے تو علمی ادبی اور تحقیقی کام کرنے والوں کو بڑی اہم سہولت میسر آجائے گی۔

حضرت میاں جمیل احمد صاحب شرقپوری مرحوم اپنے کتب خانے کی کتابوں کا مطالعہ کرتے ہوئے۔

حضرت میاں جمیل احمد شرقپوری

علامہ نصرت نوشاہی صاحب کا گھرانہ شروع سے ہی علمی ادبی گھرانہ چلا آرہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے کتب خانہ میں زیادہ تر نادر اور نایاب قسم کی قلمی کتابیں موجود ہیں۔ فارسی اور عربی کتب زیادہ ہیں۔ یہ ذخیرہ کتب تفسیر، حدیث، ادب تاریخ کے ساتھ طب کی کتابوں پر بھی مشتمل ہے۔ علامہ نصرت نوشاہی صاحب نے اس کتب خانہ میں اضافہ کیا ہے۔ اور بعض پرانی کتابوں کی جلد بندی بھی کروائی ہے۔
مگر ان کتابوں کا نہ تو ریکارڈ رکھا گیا ہے اور نہ سائنسی ترتیب سے الماریوں میں رکھی گئی ہیں۔ بس ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ کتاب تلاش کرنے میں گھنٹوں تک کا وقت صرف ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں جب بھی کسی کتاب کی ضرورت پیش آتی ہے تو اسے ادرگرد کی لائبریریوں سے پکٹر لیتے ہیں۔
لہذا کہا جاسکتا ہے کہ کتب خانہ نہ تو ان کے اپنے استعمال میں ہے اور نہ ہی کوئی دوسرا شخص استفادہ کرسکت ہے۔ مطالعہ گاہ بھی نہیں ہے۔ کتب بینی کے مطالعہ میں یہ ایک عظیم سانحہ علامہ صاحب کی زندگی میں در آیا ہے۔ دوستوں نے بارہا کہا ہے کہ ہم آپ کے ساتھ مل کر آپ کی کتابوں کو ترتیب سے رکھتے ہیں۔ مگر اپنے عزم کا اظہار فرماتے ہوئے کہتے ہیں۔
نہیں نہیں دوستو! میں بڑی جلدی انہیں ترتیب سے رکھنے کا انتظام کررہا ہوں۔ مگر سالوں پہ سال بیتے جارہے ہیں۔ یہ انتظام ابھی تک نہیں ہوسکا ہے۔ اس بے ترتیبی کے ساتھ ساتھ ان کتابوں کی جگہ بھی بدلتی جارہی ہے۔ جس کے باعث ان کے بہت سے قیمتی مسودے بھی ضائع ہوگئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ آج تک کوئی بھی کتاب ترتیب نہیں دے سکے۔ ورنہ ان کے تحقیقی، تاریخی اور ادبی شہ پارے یکجا کرلئے جاتے تو کتنی مبسوط کتب منظر عام پر آسکتی تھیں۔ نصرت نوشاہی صاحب کی آنکھیں دو موقعوں پر ضرور بھیگ جاتی ہیں۔ ایک اپنے جواں مرگ بیٹے محمد مراد حسنین کی یاد آنے پر اور دوسرے اپنے کتب خانے کا حشر دیکھ کر۔ اللہ کرے وہ یہ دونوں غم بھول جائیں۔

حضرت مولوی محمد یحییٰ صاحب مرحوم شرقپور شریف میں اہل حدیث مکتبہ فکر کے بڑے اجل عالم تھے۔ اپنے خاندان میں علمی شمع روشن کرنے والے آپ پہلے شخص تھے۔ آپ کی علمی یگانگت ہی کتابیں خریدنے اور جمع کرنے کا باعث بنی۔ آپ اپنی آمدنی کا اکثر حصہ سرمایہ کتب جمع کرنے میں صرف کرتے رہے ہیں۔ اور پھر یہی ذوق و شوق آپ کے بڑے بیٹے حافظ محمد مسعود عالم کے حصے میں آیا۔ انہوں نے والد محترم سے بھی زیادہ توجہ اس جانب مبذول رکھی۔
چنانچہ ان کے کتب خانے میں 15000 سے زیادہ کتابیں جمع ہوچکی ہیں۔ اور روز بروز مزید اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ یوں تو آپ کے کتب خانے میں اردو، پنجابی، فارسی اور عربی زبانوں میں کتابیں موجود ہیں۔ مگر عربی میں کتابیں زیادہ ہیں۔ تفسیر، فن تفسیر، حدیث، فن حدیث، فقہ ائمہ اربعہ، اصول فقہ، لغت، ادب، اسماالرجال، تاریخ، ادب، ریاضی، ہندسہ، مناظرات اور دیگر مختلف فنون کی مبسوط کتب موجود ہیں۔ ان کتابوں میں بیروت، مصر، بغداد اور سعودی عرب میں چھپنے والی نادر کتب بھی موجود ہیں۔ آپ کے کتب خانے کی شہرت بیرون ملک تک ہے۔ چنانچہ بیرون ملک کے لوگ یہاں آکر استفادہ کرتے ہیں۔ آپ کا یہ کتب خانہ آپ کی رہائش گا کے ایک بڑے کمرے میں آہنی الماریوں میں موجود ہے جو سائنسی اصول ترتیب سے ہیں۔ مطالعہ کے لیے الگ انتظام نہیں ہے اور نہ کتابیں عام لوگوں کو گھر لے جانے کی اجازت دی جاتی ہے۔ اس کتب خانے میں ٹیبل اور کرسیاں بچھی ہیں یہیں بیٹھ کر شائقین اور محققین استفادہ کر لیتے ہیں۔

ملک حسن علی صاحب کا گھرانہ شروع سے ہی علم دوست رہا ہے۔ بلکہ کہا جاتا ہے کہ وہ بچپن میں اپنی خاندانی کتابوں کو بطور کھلونا استعمال کیا کرتے تھے اور پھر لڑکپن کے زمانہ میں وہ ان کتابوں کی ورق گردانی اس عزم کے ساتھ کیا کرتے کہ وہ جلدی انہیں پڑھنے والے بن جائیں گے۔ پھر وہ واقعتہ انہیں پڑھنے والے بن گئے ان کے شوق مطالعہ نے ایک وسیع کتب خانہ تشکیل دیدیا۔
ان کے کتب خانہ میں تفسیر، حدیث، اصول تفسیر، اصول حدیث اور فقہ جیسی مذہبی کتابوں کے علاوہ تاریخ، ادب، تحقیق اور تنقید کے موضاعات پر بے شمار کتابیں موجود ہیں۔ یہ کتب خان آپ کی رہائش گا میں بالائی منزل پر واقع ہے۔کتابیں الماریوں میں رکھی گئی ہیں اور ریکارڈ کا رجسٹر موجود ہے۔ مگر ترتیب سائنسی اصولوں ک مطابق نہیں ہے۔ دارلمطالعہ بھی ہے۔ ملک صاحب کی زندگی میں وہیں کتب بینی کے اجازت تھی۔ مگر ان کی وفات کے بعد یہ کتب خانہ مقفل ہے۔ اب ان کے بیٹوں کے علاوہ کسی کو ان کتابوں سے استفادہ کی اجازت نہیں ہے۔ کاش کہ اسے ملک صاحب کی یادگار کے طور پر عام لوگوں کے مطالعہ کے لیے کھول دیا جائے۔

حضرت مولیٰنا منصب علی صاحب مرحوم اہل سنت و جماعت حلقہ کے شہرت یافتہ مقرر، استاد، عالم اور مصنف تھے۔ آپ کا کتب خانے میں تقریبا 3000 کے اوپر کتابیں موجود ہیں۔ جو ان کے صرف ذاتی مطالعہ کے لیے تھیں۔ کوئی دوسرا شخص ان کتابوں سے استفادہ نہیں کرسکتا تھا۔ آپ کی زیادہ کتب فارسی، عرب اور اردو میں ہیں۔ ان کتابوں میں تفسیر، حدیث، فقہ، صرف ونحو، تاریخ، ادب، لغت، مناظرات، عربی قصائد، ریاضی ہندسہ اور اسما الرجال کے موضوعات پر مشتمل کتب ہیں۔ آپ کی کتابیں بے ترتیب پڑی ہیں تاہم وہ اپنی آخری زندگی میں انہیں سائنسی اصولوں کے مطابق ترتیب سے رکھنے کے خواہش مند تھے۔ اب ان کی وفات کے بعد یہ کتابوں کا ذخیرہ ان کے بیٹوں کے پاس ہے۔

یہ کتب خانہ گجرانوالی مسجد کے امام وخطیب حضرت مولانا سعید الرحمٰن صاحب کا ذاتی ہے۔ آپ کے دادا جان عبدالرحمٰن فاروقی اور آپ کے والد مولانا غلام نبی فاروقی کا شمار وقت کے جید علما کی صف میں ہوتا ہے۔ آپ کے والد مختلف فنون کی کتب کے مصنف ہیں۔ ان کی وفات کے بعد ان کا سارا کتب خانہ مولانا سعید الرحمان صاحب کی ملکیت میں آگیا۔ پھر آپ نے بہت سی کتابیں خرید کر اس میں اضافہ کیا۔ آج یہ کتب خانہ تقریبا 3000 کتابوں پر مشتمل ہے۔ کتب خانہ دوجگہوں میں بٹا ہوا ہے۔ تقریبا نصف کے قریب کتب گھر میں ہیں اور دوسری نصف کتابیں مسجد گجرانوالی میں رکھی ہوئی ہیں۔
کتب خانہ میں زیادہ کتب عربی زبان میں ہیں تاہم فارسی، اردو اور پشتو میں بھی ہیں۔ ان کتب میں فن تفسیر، اصول تفسیر، فن حدیث، اصول حدیث، فقہ آئمہ اربعہ، اصول فقہ، سوانح، مناظرات، صرف و نحو اور تاریخ و ادب پر موجود ہیں۔
مولانا سعید الرحمٰن نے فرمایا تھا کہ یہ کتب خانہ ابھی نامکمل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر ماہ نئی کتابیں وہ خریدتے رہتے ہیں۔ عام طور پر یہ کتب خانہ ان کے ذاتی استعمال میں رہتا ہے عوام کے لیے نہیں ہے اور وہ کتابیں مستعار نہیں دیتے۔ کیوں کہ ان کے تجربات میں یہ بات ہے کہ جو کتاب لے جاتے ہیں وہ واپس نہیں کرتے۔ اس کا بڑا قلق ہوتا ہے۔ تاہم تحقیق کرنے والے بعض لوگ آپ کی موجودگی میں اس سے فائدہ اٹھاتے رہتے ہیں۔
مولانا صاحب اپنے کتب خانہ سے استفادہ کرکے کوئی کتاب ابھی تک منظر عام پر نہیں لائے۔ اس کی وجہ ان کی دیگر مصروفیات اور طبیعت کا ناساز ہونا ہے۔ ویسے اپنے فن تفسیر کے موضوع پر بہت سا کام کررکھاہے۔ علاوہ ازیں اپنے والد ماجد کی کتاب سیرت خیرالبشر جو پشتو میں ہے کو عربی قالب میں ڈھال رہے ہیں۔

محمد انور قمر شرقپوری مرحوم غالبا اپنے خاندان کے پہلے شخص تھے جن کی وجہ سے ان کے گھرانہ میں علم کی روشنی آئی۔ ورنہ مدتوں اس گھر میں سب کچھ تھا مگر علم نہیں تھا۔ قدرت انے انہیں مطالعہ کا شوق عطا فرمایا اس کے ساتھ ساتھ کچھ تحقیق کا کام بھی کرنے لگے اور انہوں نے بہت سے کتابیں جمع کر لیں۔ اس طرح ان کے پاس تفسیر، احادیث، تاریخ وادب کے موضوعات پر اردو، پنجابی، فارسی اور عربی میں 2000 کے اوپر کتب جمع ہوگئیں۔ یہ کتب خانہ ان کا ذاتی تھا جس میں وہ خود مطالعہ کرتے۔ یہ کتب خانہ ان کی ذاتی رہائش گاہ میں بیرون نیا دروازہ میں انکی ذاتی رہائش گاہ کے ایک کمرے میں ترتیب دیا گیا ہے۔ محمد انور قمر صاحب اب وفات پا چکےہیں۔ اور ان کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ جتنا تحقیقی کام انہوں نے شرقپور کے اوپر کیا ہے وہ کوئی اور نہیں کرسکا انہوں نے اس کے لیے مطالعہ نقوش شرقپور کے نام سے ایک کتاب بھی لکھی جس میں شرقپور کے بہت سے تاریخی پہلوں کو اجاگر کیا گیا ہے جواس سے پہلے کوئی نہ کرسکا تھا۔ ان کے اس تحقیقی کام کے لیے ان کا نام شرقپور کی تاریخ میں سنہرے حروف میں لکھا جائے گا۔

یہ لائبریری سٹوڈنٹس ویلفیر ایسوسی ایشن کے اہتمام سے 1982 میں قائم کی گئی۔ شیخ عبدالروف شاداب اس تنظیم کے روح رواں ہیں۔ اگر انہیں اس تنظیم سے نکال دیا جائے تو تنظیم کے بکھر جانے کا زیادہ امکان ہے۔ عبدالروف شاداب کے نانا جی حاجی میاں کریم بخش ایک علم دوست بزرگ تھے۔ انہیں کے نام پر کریم بخش لائبریری نام رکھا گیا ہے۔
جناب عبدالروف شاداب نے اپنے اثرورسوخ سے کتابیں جمع کی ہیں بہت سے کتابیں ضائع ہوجانے کی باوجود 2000 کے قریب کتب اب بھی موجود ہیں۔ ان کتابوں میں بڑے، چھوٹے افراد کی دلچسبی کی کتب شامل ہیں۔ انگریزی، فارسی، عربی، اردو اور پنجابی زبان میں کتابیں ہیں۔ ان کتابوں میں ناول، تفسیر، حدیث، تاریخ اور ادب کے موضوع پر زیادہ کتابیں ہیں۔ ایم اے کے نصاب کی کتابیں بھی ہیں۔ یہ ساری کتابیں شرقپور شریف میں لاھور کے مخیر حضرات نے فراہم کی ہیں۔ محکمہ اوقاف لاھور کے علاوہ لائبریری فاونڈیشن کی طرف سے عطیہ میں بھی کتابیں ملی ہیں۔ لائبریری کے لیے چونکہ مستقل جگہ نہ تھی لہذا لائبریری کے لیے مختلف جگہوں پر اس کے ٹھکانے بدلتے رہے ہیں۔
جب شاداب کمپلیکس تعییر ہوا جو کے چوک شیرربانی سے دربار حضرت میاں شیر محمد رحمتہ اللہ علیہ کی طرف جاتے ہوئے بائیں جانب رستے میں آتا ہے تو اسے مستقل جگہ مل گئی۔ اب یہ لائبریری صبح 9 تا 11 بجے تک باقاعدہ کھلتی ہے۔ وہیں ریڈنگ روم میں بیٹھ کر کتابیں پڑھنے کو مل جاتی ہیں۔ مستعار کتابیں دینے کا طریقہ منسوخ کردیا گیا ہے۔ لوگ چونکہ کتابیں گھر میں لا کر گم کردینے کے عادی ہیں۔ لہذا بہت کم لوگ اس لائبریری سے استفادہ کررہے ہیں۔ خدا کرے عوام کا ذوق مطالعہ میں بڑھے اور اس سرمایہ علم سے فائدہ اٹھا سکیں۔

حکیم محمد رفیق ناز نوشاہی ایک علم دوست شخصیت ہیں۔ علم سے گہری دوستی اور ذوق نے نہایت تھوڑے عرصے میں انہیں ایک اچھے کتب خانے کا مالک بنا دیا ہے۔ انہیں تصوف اور مذہب کی کتابیں پڑھنے کا شوق پیدا ہوا اور کتابوں کی خریداری کا آغاز کردیا۔ ان کی دوکان پر اکثر کوئی نہ کوئی کتاب دیکھی جاسکتی ہے۔ ان کی حکمت کی دوکان مسجد چوک شیرربانی کے پاس فیض حلوائی گلاب جامن والے کے سامنے ہے۔ لیکن ان کی ذاتی کتب کا ذخیرہ ان کے گھر محلہ شریف پارک میں ہے۔ جب محمد انور قمر صاحب مطالعہ نقوش شرقپور کتاب ترتیب دے رہے تھے اور حکیم محمد رفیق صاحب کو پتہ چلا کہ اس کتاب میں کتب خانوں کا ذکر بھی ہو گا تو وہ انہیں گھر لیے گئے اور کہنے لگے استاد محترم کیا اس لائبریری کا ذکر بھی آپ کی کتاب میں آسکتا ہے۔
تو محمد انور قمر صاحب وہ کتب خانہ دیکھ کر حیران رہ گئے جس میں تاریخ، حدیث، تصوف اور طب کی نایاب کتابیں موجود تھیں۔ بہت سے کتابوں کی فوٹو سٹیٹ کاپیاں بھی موجود تھیں۔ جو انہوں نے ہندوستان سے منگوا کر رکھی ہوئی ہیں۔ یہ کتب خانہ ان کی بیٹھک میں موجود ہے اور ان کے ذاتی استعمال میں رہتا ہے وہ اس ذخیرہ کتب سے بہت پیار کرتے ہیں اور اس میں دن بدن اضافہ کررہے ہیں۔ کتاب دوسروں کو دینے میں بڑی احتیاط کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں بہت سی کتابیں ان کے دوست اور بزرگ لے گئے ہیں جو واپس نہیں آئیں۔ بو علی سینا کی کتاب القانون بھی ان کی لائبرئیری میں موجود ہے۔
لاھور کے ایک ناشر نے ان سے بعض کتابیں حاصل کرکے شائع کی ہیں۔ مگر ان کے اس کام کا معاوضہ انہیں بس شکریہ کی صورت میں ملا اب یہ ادارے والے دوبارہ کتب مانگ رہے ہیں مگر آپ اجتناب کر رہے ہیں کیونک پہلے والی کتب کی جلدیں انہوں نے اکھاڑدیں تھیں اور ان کی ہیت بدل دی تھی۔ فرماتے ہیں اگر اللہ نے ہمت دی تو میں خود ان کی اشاعت کا انتظام کروں گا۔ اب ان کی کتابوں میں بہت سی قانون کی کتابوں کا بھی اضافہ ہو گیا ہے کیوں کہ ان کا بڑا بیٹا فضل اللہ ایڈووکیٹ بن گیا ہے اور وہ بھی اس لائبریری میں قانون کی کتابیں جمع کرتا رہتاہے۔
کتابوں کا ریکارڈ نہیں رکھا گیا ہے تاہم ترتیب ضرور رکھی گئی ہے۔ طب اور حکمت کے بے شمار رسالے بھی جلد کروا کر محفوظ کر لیے گئے ہیں۔ بہت سے کتابیں جگہ ناکافی ہونے کی وجہ سے بوریوں میں ڈال کر رکھی ہوئی ہیں۔ جو ان کتابوں سے زیادتی ہے۔
حکیم محمد رفیق ناز نوشاہی صاحب کے سسر ایک اچھے خطیب ہیں جو اسلامی موضوع پر کوئی 300 کتب لے گئے ہیں جن پر ان کے حقوق تسلیم کر لیے گئے ہیں۔

حکیم محمد رفیق ناز نوشاہی صاحب اور ان کے کتب خانے کی تصاویر۔

حکیم محمد رفیق ناز نوشاہی
حکیم محمد رفیق ناز نوشاہی
حکیم محمد رفیق ناز نوشاہی
حکیم محمد رفیق ناز نوشاہی
حکیم محمد رفیق ناز نوشاہی
حکیم محمد رفیق ناز نوشاہی
حکیم محمد رفیق ناز نوشاہی
حکیم محمد رفیق ناز نوشاہی

یہ لائبریری کرایہ پر کتابیں مستعار دینے والی ہے۔ یہ چھوٹا اڈا میں عمران میڈیکل سٹور کے ساتھ ہے۔ اس لائبریری میں عوامی دلچسپی کی کتابیں زیادہ ہیں۔ یعنی ناول زیادہ ہیں۔ یہ ناول تاریخی بھی ہیں اور جاسوسی بھی جن میں زیادہ تر مظہر کلیم ایم اے کی عمران سیریز کے ناول شامل ہیں۔ اس کے علاوہ بچوں کے لیے بھی کتابیں موجود ہیں۔ یہ کتابیں روزانہ کی بنیاد پر کرایہ پر دی جاتی ہیں۔ لائبریری دوکان نما ہے۔ لائبریری میں بیٹھ کر کتاب پڑھنے کا انتظام نہیں ہے اور نہ ہی عام لوگوں کے رسائل واخبارات رکھے گئے ہیں۔ ظاہری طور پر کتابیں مستعار لینے والوں کی کوئی زیادہ بھیڑ دکھائی نہیں دیتی اس کی وجہ شائد یہ ہے کے لوگوں کو بذریعہ ٹی وی اور انٹرنیٹ وہ تفریحی معلومات مل جاتی ہیں جو ایسی لائبریری کی کتابوں میں ہوتی ہے۔ تاہم لائبریری کے مالک ملک محمد اعظم بڑے مطمن ہیں کہ ان کا خرچہ پانی چل رہا ہے۔ اندازہ ان کے پاس 2000 کے اوپر کتابیں ہوں گی۔ الماریاں بغیر شیشوں کے ہیں اور برلب سٹرک ہونے کے وجہ سے کتابیں گردوغبار میں اٹی رہتی ہیں۔