آج ملک میں ہر سیاسی پارٹی ملک میں تبدیلی لانے کا نعرہ لگا رہی ہے۔ عوام سارا دن سوشل میڈیا پر اپنی اپنی پسند کی پارٹی کا دفاع کرتے ایک دوسرے کی پارٹی سربراہ پر کیچڑ اچھالتے اور لمبی لمبی گالیاں نکاتے رہتے ہیں۔ اور کچھ پارٹیوں نے تو باقاعدہ اس مقصد کے لیے سوشل میڈیا سیل بنارکھے ہیں جن کا سارا دن کام فوٹو شاپ کی ہوئی جعلی تصاویر اور نیچے گالیاں لکھ کر دوسرں کے جذبات کو بھڑکانا اور اس عوام کو آپس میں لڑائے رکھنا ہے تا کہ یہ عوام آپس میں ہی لڑتی رہے اور جو ان کے بنیادی مسائل ہیں ان کی طرف ان کی توجہ ہی نہ جائے۔ انگریز اس خطہ پر کئی سو سال حکومت کرنے کے بعد خود تو چلے گئے لیکن اس خطے کی اشرافیہ کو یہ سبق دے گئے کہ اگر تم لوگوں پر حکومت کرنا چاہتے ہو تو ان کو تقسیم کرو اور آپس میں لڑاو اور ان پر حکومت کرو، ان کو کبھی بھی اپنے بارے میں سوچنے کا موقع نہ دو۔ اور یہی کچھ آج اس ملک میں ہو رہا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ تبدیلی کیسے آئے گی ؟ کیا اس ملک کی اشرافیہ اس ملک میں تبدیلی لیے کر آئے گی ؟ اور کیا اس سرمایہ درانہ نظام میں تبدیلی ممکن ہے جہاں کوئی بھی کسی چیز کو فری دینے کے لیے تیار نہیں۔ جہاں ہر کوئی صرف اپنا مفاد دیکھتا ہے۔ اگر کوئی یہ سوچ رہا ہے کہ تبدیلی اوپر سے سیاسی پارٹیوں کے زریعے آئی گی تو پھر وہ اس سراب کے پیچھے بھاگ رہا ہے جس کو وہ کبھی بھی نہیں پاسکتا۔
کوئی بھی معاشرہ افراد سے مل کر بنتا ہے اور ہر معاشرہ اپنے افراد کے کردار کا آئینہ ہوتا ہے۔
اس لیے قرآن پاک میں بھی فرمایا گیا ہے کہ اللہ کسی قوم پر ایسا ہی سربراہ مقرر کردیتا ہے جیسی وہ قوم ہوتی ہے۔
ہمیں تبدیلی لانے کے لیے کسی مسیحا کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں۔ ہمارے ملک میں حکمران اس لیے کرپٹ ہیں کہ ہم لوگ خود کرپٹ ہیں اور وہ ہمارا ہی آئینہ ہیں۔ ہم ان کے پیچھے چھپ کر خود کر بڑا کرنا چاہتے ہیں۔ اگر آپ اس ملک میں تبدیلی چاہتے ہیں تو پھر سب سے پہلے خود کا احتساب کرنا لازمی ہے۔
حضرت بابا بھلے شاہ رحمتہ اللہ علیہ نے کیا خوب فرمایا ہے۔
پڑھ پڑھ عالم فاضل ہویا
کدے اپنے آپ نوں پڑھیا ای نہیں
جا جا وڑدا مسجداں مندراں اندر
کدے من اپنے وچ و ڑ یا ای نہیں
ایویں روز شیطان نال لڑدا
کدی نفس اپنے نال لڑیا ای نہیں
بلھے شاہ اسمانی اڈدیاں پھڑدا ایں
جیہڑا گھر بیٹھا اونوں پھڑیا ای نہیں
اگر آپ چاہتے ہیں کہ اس ملک میں تبدیلی آئے تو پھر
آپ اپنے آپ سے وعدہ کرلیں کہ آپ بجلی چوری نہیں کریں گئے نہ کسی میٹر ریڈر کو پیسے دیں گئے۔
گیس چوری نہیں کریں گئے نہ کوئی ریگولیٹر وغیرہ لگا کر دوسروں کا حق مارنے کی کوشش کریں گئے۔
پانی چوری نہیں کریں گئے۔
گورنمنٹ محکموں کے اندر وقت بچانے کے لیے رشوت نہیں دیں گئے نہ رشوت لیں گئے چاہے کام میں تاخیر ہوجائے۔
اگر آپ صحافی، وکیل، سیاست دان یا کسی سرکاری محکمے کے ملازم ہیں اور آپ نے اپنی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی نمبر پلیٹ پر اپنے محکمے یا اپنے عہدوں کے لحاظ سے رنگ کروائے ہوئے ہیں تا کہ کسی پولیس چوکی پر کوئی قانون کا محافظ آپ کو روک نہ سکے اور آپ کے عہدے یا ادارے کی دہشت اس پر چھاجائے تو آج سے ہی اپنی نمبر پلیٹوں کو صاف کرودایں اور ان پر صرف نمبر ہی رہنے دیں۔
اپنے آپ سے وعدہ کرلیں کہ آپ کے گھروں کے سامنے جو کوڑا پڑا ہے اگر وہ کسی میونسپلٹی یا ٹی ایم اے کے ملازم اٹھانے نہیں آتے تو آپ خود ہی اس کو اٹھا کر کسی کوڑے دان میں ڈال دیں گے اور گلی کے اندر کوئی کوڑے دان نہیں ہے تو اس گلی والے مل کراس گلی میں ایک کوڑے دان خرید کررکھ دیں گے اس لیے کے ہمارے دین نے صفائی کو نصف ایمان بتایا ہے۔
آپ بازار میں یا روڈ پر چلتے ہوئے یا کسی گاڑی میں بیٹھے ہوئے کوئی پھل یا کوئی اور چیز کھارہے ہیں تو پھل کے چھلکے یا ریپر وغیرہ روڈ پر نہیں پھینکیں گئے بلکہ اس کو اسی شاپر میں ڈال کر کسی کوڑے دان میں جا کر ڈال دیں گے۔
آپ گاڑی میں بیٹھے ہوں تو سیٹ بیلٹ ضرور لگائیں گئے اور بغیر لائسنس کے گاڑی نہیں چلایں گے اور کسی سرخ بتی کو کراس نہیں کریں گے چاہیے کوئی دیکھ رہا ہو یا نہ دیکھ رہا ہو۔
ہسپتالوں کے باہر ہارن نہیں بجائیں گے۔
آپ بل جمع کروانے یا کسی بھی محکمے کے اندر کسی کام سے گئے ہیں تو اپنی باری کا انتظار کرتے ہوئے لائن میں بیٹھ کااپنی باری کا انتظار کریں گے اور دوسروں کا پہلے آئے ہیں خیال رکھیں گے۔
اپنے آپ سے وعدہ کریں کہ آپ کسی بھی سیاسی نمائندے کو برادری، رشتے داری یا پارٹی بیس پر ووٹ نہیں دیں گے بلکہ اپنے ملک کے مفاد کو مدنظر رکھ کر ووٹ دیں گئے چاہے اس میں وقتی طور پھر آپ کو اپنے علاقے کی بھلائی نظر نہ آرہی ہو۔
آپ کسی بھی کاروبار سے منسلک ہیں بے ایمانی اور کم ناپ تول یا زخیرہ اندوزی نہیں کریں گئے۔
اگر آپ کی گلی یا محلے میں کوئی غریب آدمی غربت کی وجہ سے اپنے بچوں کو سکول نہیں بھیج سکتا تو سب مل کر اس کی مدد کریں گے اگر وہ پھر بھی بچوں کو سکول تعلیم حاصل کرنے کے لیے نہیں بھیجتا تو اس کا سوشل بائیکاٹ کردیں گے۔
اگر آپ چاہتے ہیں کہ اس ملک میں احتساب کا عمل قائم ہو اور میرٹ پر فیصلے ہوں اور ادارے ٹھیک کام کریں تو پھر حکمرانوں کو کوسنے کی بجھائے اوپر دی گئی باتوں پرآج سے ہی عمل کرنا شروع کردیں تو انقلاب ضرور آئے گا اور یہ وہ انقلاب ہو گا جوآپ کے معاشرے کو بدل دے گا۔ اوراگر آپ ایسا نہیں کرسکتے تو پھر آپ کو بھی اس ملک میں تبدیلی کا خواب دیکھنے کا کوئی حق نہیں۔