شرقپور کے چند مشہور ڈیرے / دیوانیے

حقیقت میں ڈیرا اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں مسافر لوگ کچھ دیر یا کچھ دنوں تک قیام کرتے ہیں۔ یہ لوگ ایک بڑا خیمہ بھی لگاتے ہیں۔ جس کے سائے میں لوگ ایک ہی خاندان کے افراد بن کر رہتے ہیں یا الگ الگ خیمے بھی لگا لیتے ہیں اور کسی ایک امیر کے حکم کے تابع ہو کے رہتےہیں۔ اگر دنیا کو ایک عارضی قیام گاہ مان لیا جائے تو اس میں ہر آدمی مسافر ہے لہذا اس دنیا کی ہر چھوٹی بڑی بستی ایک ڈیرہ ہی ہے۔ بستیوں کے آباد ہونے میں یہ بات بڑی واضح ہے کہ آباد کرنے والے لوگ اولا ایک ڈیرہ بنا کررہے اور وہ ڈیرہ ان لوگوں کے سربراہ کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔۔ ڈیرہ اسماعیل خان، ڈیرہ غازی خان، ڈیرہ دون وغیرہ کے نام ایسے ہی پڑے تھے۔ آج یہی ڈیرے بڑے شہر یا ضلعے یا ڈوثرنیں بن گئے ہیں۔

جب ڈیروں سے بستیاں بن گئیں تو ان بستیوں اور بستی کے لوگوں کے بے شمار مسائل پیدا ہوئے اور ان مسائل کے حل کے لئے بستی کے معتبر لوگ نمایاں ہوئے۔ لوگ اپنے مسائل لے کر ان کے پاس آئے۔ ایسے لوگوں میں ہر قماش کے لوگ ہوتے تھے۔ لہذا انہیں گھر کے ماحول سے الگ رکھنے کے لئے الگ کشادہ جگہیں بنائی گئیں۔ ان جگہوں میں نہ صرف بڑے بڑے فیصلے کئے جاتےتھے بلکہ اجنبی مسافر قیام اور طعام کی سہولت بھی حاصل کرتے تھے۔ کام کے اعتبار سے یہ جگہ بڑی اہم ہوتی مگر اس جگہ کا مالک اسے بطور انکسار ڈیرہ کہتا تھا۔

ازاں بعد یہ ڈیرے پنجائت گاہیں بن گئیں جہاں بڑے عظیم فیصلے ہونے لگے اور ڈیروں کی شہرت دور دور تک ہونے لگی۔ اس طرح دوسرے علاقوں کے مستغیث بھی ان ڈیروں میں آنے لگے۔ ڈیروں کے نظام کا دوسرا نام پنچائتی نظام ہے ۔ پنچائتی نظام کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ جس پر حکومت کا کوئی دباو نہیں ہوتا۔ ایک گاوں کے چند سرکردہ عزت والے اور حساس والے بندے ایک پنچائت یا ڈیرے بنا لیتے ہیں اور وہاں کے لوگوں کے درمیان جو چھوٹے موٹے جھگڑے وقوع پذیر ہوتے ہیں ان کے فیصلے وہ خود ہی کر لیتے ہیں۔ اس نظام سے نہ صرف لوگوں کا وقت بچتا ہے بلکہ روپیہ بھی بچ جاتا ہے۔ اگرچہ حکومت کی عدالیتں کام کررہی ہیں مگر ڈیروں کی اہمیت اورحثیت اپنی جگہ مسلم ہے۔
شرقپور شریف میں ایسے ڈیرے تھے جن سے بڑی اچھی اچھی روایات وابستہ تھیں مگر اب تو وہ نام کے ڈیرے رہ گئے ہیں۔ یہ ڈیرے جن مقاصد کے لیے بنائے گئے تھے وہ معدوم ہیں۔ چند ڈیروں کا ذکر کیا جاتا ہے۔


حافظ محمد جمال شرقپور شریف کے بانی ہیں اور وہ ایک ہمدرد قسم کا چوھردی تھا وہ یہاں آیا تو اپنے ساتھ کچھ لوگوں کو بھی لیے کر آیا۔ جنہیں اس نے بھائیوں اور بیٹوں کا درجہ دیا۔ ان کے مسائل اپنے ہی مسائل سمجھے۔ اپنے خاندان کے مسائل سمجھے۔ ان مسائل کے لئے اس نے جو ڈیرہ بنایا وہ پرانی سبزی منڈی والے دروازے کے باہر بنایا۔ یہ ڈیرہ کم وبیش تین کنال کے رقبے پر محیط تھا۔ ایک کچہ مسافر خانہ بنایا گیا تھا بعد میں اس کی جگہ پختہ کمرے بن گئے۔ حقہ سارا دن گرم رہتا اور چلتا رہتا تھا۔ حافظ محمد جمال اکثر یہاں ہی مل جاتا تھا۔ آنے والے لوگ لسی اور روٹی سے محروم نہ رہتے تھے۔ حافظ محمد جمال کے بعد اس ڈیرے کو ان کے تینوں بیٹوں حافظ محمد برہان حافظ محمد اور حافظ احمد اسی نہج پر چلاتے رہے جس نہج پر ان کا باپ چلاتا تھا۔ مگر ان کے بعد ان کے بیٹے بکھر گئے اور اپنے اپنے دھندوں میں ایسے الجھے کے ڈیرے پر توجہ نہ دے سکے اور یہ ڈیرہ محض فارغ قسم کے لوگوں کے لیے بیھٹنے اٹھنے کی جگہ بن گیا۔ حافظ ملک مظفر علی اور ا نکے بھتیجے حافظ برکت علی کی زندگی میں اس ڈیرے میں شام کے بعد کچھ گہما گہمی ہوتی تھی۔ زیادہ باتیں سیاست پر ہوتی تھیں۔ سائیں محمد رمضان ڈیرے کے دھوئیں اور حقے کا زمہ دار ہوتا تھا۔ بعد میں یہ ڈیرہ محض فاتحہ خوانی کے لیے استعمال ہونے لگا۔ یا کھبی کبھی کوئی چھوٹا موٹا مذہبی یا سیاسی جلسہ ہو جاتا تھا۔ اگست 13، 2015 کو یہ ڈیرہ ڈی سی او شیخوپورہ کرن خورشید کے حکم پر اسسٹنٹ کمشنر شرقپور نورش صبا کی موجودگی میی مسمار کر دیا گیا اب اس پر پانی والا ٹیوب ویل لگا دیا گیا ہے۔

یہ ڈیرہ ملکانہ دروازہ کے باہر ہے اس کی قدامت شرقپور کے آباد ہونے کے دور کی خبر دیتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اصل میں اسے شیخانہ خاندان نے بنایا تھا۔ مگر بعد میں ملک بھی اس میں شامل ہوگئے اور شیخانہ، ملکانہ سانجہ ڈیرہ بن گیا۔ مگر اب اسے ملکانہ ڈیرہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ا س کی وجہ شاید یہ ہو کہ شیخانوں نے شروع سے ہی ڈیرے کے تقاضے پورے نہ کیئے ہوں اور اس کے مسافروں کو ملکوں کی طرف سے منجی بستر ملتا رہا ہو۔ اس ڈیرے کا رقبہ بھی تین کنال کے قریب ہے۔ بڑھ کے درخت کچھ جگہ کو سایہ مہیا کرتے ہیں یا کسی شادی کے موقع پر تنبو تان کر سایہ دار بنا لیا جاتا ہے۔ ایک وقت تھا کہ اومنی بس والوں نے اسے بطور اڈا بھی استعمال کیا جو ڈیرے کے چہرے پر ایک بدنما داغ بنا رہا۔ بعد میں یہاں کاریں کھڑی کی جاتی تھیں یا ٹریکٹر ٹرالیاں اس جگہ کو روک لیتی تھیں۔ ڈیرے کی کچھ جگہ پر سڑک کنارے کچھ دوکانیں بنائی گئی ہیں۔ اب یہ ڈیرہ محض نام کا ڈیرہ رہ گیا ہے۔ کیا پتہ آنے والے وقت میں یہاں کوئی عمارتیں بن جائیں۔ اب اس ڈیرے کو نئے مقاصد کے تحت نئے انداز میں تعمیر کیا جارہا ہے پچھلی جانب دو بڑے ہال 24*16 کے بنادئے گئے ہیں ان کے درمیان میں بہت کشادہ جگہ مسقف کردی گئی ہے۔ سٹور اور اٹیچ باتھ بھی بنا دیئے گئے ہیں۔ اس کے دروازے ہر ضرورت مند کے لیے کھلے رہتے ہیں۔ اس ڈیرے کو تاریخی اعتبار سے اس لحاظ سے بھی بڑی نمایاں حثیت حاصل ہے کہ جب آزادی وطن اور تحریک پاکستان کا زور تھا اس وقت شرقپور میں یونینسٹ پارٹی کا زور تھا اور یہاں مسلم لیگ کا نام لینا یہاں کی سیاست سے دشمنی مول لینے کے برابر تھا۔ لوگوں کے دل چاہتے تھے کہ پاکستان کے حق میں نعرے لگائیں مگر ان کے لب خاموش تھے اور ان پر ایک خوف مسلط تھا۔ جب 1946 کے انتخابات کی تیاریاں ہورہی تھییں تو حضرت قائداعظم ؒ نے سوچا کہ برصغیر کے مشائخ کو اعتماد میں لئے بغیر مسلم لیگ کی کامیابی غیر یقینی ہے۔ چنانچہ کشمیری رہنما چودھری غلام عباس کو ہمراہ لے کر علی پور سیداں میں پہنچے اور پیر سید حضرت جماعت علی شاہ صاحبؒ سے ملاقات کی۔ عرض کیا۔ 1946 کے انتخابات سے برصغیر پاک وہند کے مسلمانوں کے بہتر مستقبل کی تقدیر وابستہ ہے۔ اگر مسلمانوں نے بیداری اور ہوشیاری سے کام نہ لیا تو ایک نہایت اہم موقعہ ان کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔ آپ کا تعلق چونکہ ملک کے گوشے گوشے کے مسلمانوں سے ہے اور آپ کی ہربات سر آنکھوں پر اٹھائی جاتی ہے۔ ہم آپ سے اسی عظمت اور مرتبے کے حوالے سے عرض کرتے ہیں کہ مسلم لیگ کی کامیابی کے لئے دعا اور تعاون فرمائیں۔ پیر صاحب نے وعدہ فرمایا۔ آپ نے اپنے مریدین سے کہا کہ جو شخص مسلم لیگ کو ووٹ نہیں دے گا ہم اس کا جنازہ نہیں پڑھیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ نے مختلف سجادہ نشین حضرات کو خطوط بھی لکھے اور خود بھی ملے۔ جن میں پیر آف مانکی شریف (سید امین الحسنات) سرفہرست ہیں۔ اس فہرست میں حضرت قبلہ ثانی صاحب میاں غلام اللہ رحمتہ اللہ علیہ کا نام بھی شامل تھا۔ اب آپ کے اہتمام سےملکانہ دروازہ شرقپور شریف میں اس ڈیرے کے مقام پر ایک عظیم الشان جلسہ ہوا جس کی صدارت حضرت قبلہ ثانی صاحبؒ نے فرمائی اور معزز مہمان جو باہر سے تشریف لائے ان میں
راجہ غضنفر علی
شیخ کرامت علی
چوہدری روشن دین بھنگو
صوفی عبدالحمید
میجرعاشق حسین
چودھری محمد حسین چٹھہ
ملک محمد انور
میاں افتخار الدین
اور دیگر عظیم رہنما شامل تھے جلسہ کا آغاز دن کے 10 بجے ہوا اور اڑھائی گھنٹے تک اس کی کاروائی جاری رہی۔ لوگ آخر وقت تک جم کر بیٹھے رہے۔ اس جلسہ میں 50 ہزار روپے کی خطیر رقم کی ایک تھیلی بھی مسلم لیگ کو پیش کی گئی۔ جلسے کے سارے اخراجات حضر قبلہ ثانی صاحب نے خودبرداشت کیے۔ پاکستان بننے کے بعد کچھ عرصہ تک یہ ڈیرہ ڈبل ڈیکر بسوں کے اڈے کے طور پر بھی استعمال ہوتا رہا ہے۔ اب اس ڈیرے کی انتظامیہ میں یہ نام نمایاں ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر ذولفقار علی ملک
ڈاکٹر سیعد احمد
منیر احمد شیخانہ
ملک جمیل احمد
ملک حاکم علی

یہ ڈیرہ نواں دروازہ کے باہر واقع تھا۔ اس کے بانی حافظ غلام یٰسین تھے جو حافظ محمد جمال کے بڑے بھائی حافظ محمد حیات کی اولاد میں سے تھے۔ یہ ڈیرہ حافظ غلام یٰسین کے دور میں زیادہ پررونق رہا۔ اس ڈیرے کے سامنے ان کا اپنا مکان تھا لہذا وہ ڈیرے سے غائب نہ سمجھے جاتے تھے۔ قصوری موڑھے اور چارپائیاں بچھی رہتیں، لسی اور حقہ قیام کرنے والے لوگوں کو مل جاتا تھا۔ اور رات کا قیام کرنے والے کھانا اور ناشتہ بھی کرتے تھے۔ جب الیکشن ہوتے تو ڈیرے میں خوب گہما گہمی ہوتی تھی۔ ڈیرے کا رقبہ ایک کنال سے کم تھا۔ ایک کمرہ اور باقی کشادہ چاردیواری کے اندر تھا۔ مگر حافظ غلام یٰسین کی وفات کے بعد جب بیٹوں نے باپ کی جائیداد بانٹی تویہ ڈیرہ ان کے منجھلے بیٹے ملک سرفراز احمد کے حصے میں آیا۔ انہوں نے اس ڈیرے کو جدید طرز میں ڈھالا شاندار ہال بنوایا اور اس کے ساتھ ڈبل سٹوری رہائش گاہ بھی بنادی۔ اب اس ڈیرے میں نیشنل بنک آف پاکستان شرقپور کی برانچ کام کررہی ہے۔

ملک سرفراز احمد صاحب کو اپنے والد ماجد کا ڈیرہ ملا۔ جو کچھ دیر تک جوں کا توں رہا ازاں بعد آپ نے اسے رقم کثیر صرف کرکے جدید رنگ میں تعمیر کردیا۔ ایک بہت بڑا ہال اور ڈبل سٹوری رہائش گاہ بنادی جس میں اپنے رہنے سہنے کی ساری جدید سہولتیں مہیا تھیں۔ لوگ اس کے ہال کو خوشی غمی کے موقعوں پر استعمال کرلیتے تھے مگر بعد میں آپ نے اسے فروخت کردیا اور اپنا موجودہ ڈیرہ لاھور جڑانوالہ روڈ پر منتقل کرلیا۔ یہ ڈیرہ بھی جدید طرز کا ہے۔ مسقف کمرے اور درختوں کی گھنی چھاوں والا کشادہ صحن ہے۔ کرسیاں، قصوری موڑھے اور چارپائیاں چائے اور کھانے کے برتن سب کچھ یہاں موجود ہے۔ نہانے اور نماز پڑھنے کا انتظام بھی ہے۔ ایک آدمی بحشیت نمائندہ ملک صاحب یہاں ہمہ وقت موجود رہتا ہے۔ ملک صاحب کی رہائش چونکہ لاھور میں ہے تاہم ہر اتوار کو تقریبا 9 بجے صبح آپ بلاناغہ آتے تھے اور لوگوں کی خدمت میں 3 بجے تک مصروف رہتے ۔ ڈیرہ اب بھی آباد ہے اور ڈیرے کے تقاضے پورے کررہا ہے۔

ملک افتخار احمد صاحب ملک سرفراز احمد صاحب کے چھوٹے بھائی ہیں آپ زمیندارا اور کاروبار سے زیادہ شغف رکھتے ہیں۔ آپ نے اپنے آبائی مکان کی تعمیر نو کی تو نچلی منزل میں ایک بڑا ہال بطور ڈیرا استعمال کرنے کی غرض سے بنایا۔ مگر آپ اس ڈیرے کو بہت کم استعمال کرتے، زیادہ وقت بڑے بھائی ملک سرفراز احمد کے اتوار کے آنے پر ان کے ڈیرے میں گزارتے گویا اس دن دونوں بھائی اس ایک ہی ڈیرے کو چلارہے ہوتے۔ اگر آپ کے کوئی ذاتی قسم کے مہمان آجاتے تو اس ڈیرے کو آپ کے بیٹے ملک ناصر افتخار بطور بیٹھک استعمال کرلیتے۔ بعد میں اس ڈیرے کی جگہ دوکانیں بنادی گئی جو کہ اب کرایہ پر دی گئی ہیں۔

ملک شجاعت علی ملک مظفر علی کے بھتیجے حافظ ملک برکت علی کے بیٹے ہیں۔ سیاست سے گہرا علاقہ رکھتے ہیں۔ کونسلر اور ڈسٹرکٹ کونسل کے ممبر رہ چکے ہیں۔ غریب لوگوں کی بات دھیان سے سنتے ہیں اور ان کا ساتھ بھی دیتے ہیں۔ اگر کسی کو وقت دے دیتے ہیں تو اس کے انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں۔ یہ اپنی بھیٹک کو ہی بطور ڈیرہ استعمال کرتے رہے ہیں۔ جو ان کی رہائشی مکان سے ملحق ہے ۔ حقہ پانی اور کھانا وغیرہ پیش کرنے میں بخل نہیں کرتے ڈیرے کو وہ عروج نہیں مل سکا جو اسے ملنا چاہیے تھا۔ تاہم یہ بات ضرور ہے کو وہ ڈیرے کے تقاضوں اور مقاصد سے خوب آگاہ تھے۔

یہ ڈیرہ ملک حسین علی نورکا کے والد ملک علم دین اور ان کے تایا ملک دین محمد کی یادگار ہے۔ وہ سلجھے ہوئے اور حساس والے لوگ تھے لوگوں کے نفع ونقصان میں شریک ہونے والے تھے۔ اپنی برادری کے علاوہ دوسری برادریوں کے لوگ بھی ان کے ڈیرے کے فیصلوں کو قبول کرلیتے تھے۔
ملک حسین علی نے ان کے ڈیرے کی ساکھ کو قائم رکھا، سیاسی، مذہبی، لڑائی جھگڑے اور اغوا تک کے فیصلے آپ کے ڈیرے میں ہوتے رہتے تھے۔ اس اعتبار سے یہ ڈیرہ ایک موثر ڈیرہ بن گیا۔ چونکہ ملک حسین علی نورکا اور ان کے خاندان کے افراد اہل تشیع (شیعہ) مذہب سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کا اپنا امام بارگاہ ہے لہذا اس امام بارگاہ کی ایک مدت تک بطور ڈیرہ استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ مگر بعد میں انہوں نے سرکلر روڈ پر مسجد شیرربانی کے سامنے اپنی نئی شاندار بلڈنگ میں ڈیرہ منتقل کرلیا۔ ملک حسین علی نورکا اس ڈیرے کے مالک اور ناظم تھے۔ گو اس ڈیرے پر فیصلے پنچائیت کے نظام کے تقاضے پورے نہیں کرتے تاہم فیصلے قریب قریب اسی طرز کے ہوتے تھے۔ اس ڈیرے پر پنچائیت کے نظام کے تقاضے اس لیے پورے نہیں ہوتے کیونکہ اس ڈیرے کا نظام ایک اور صرف ایک شیخصیت کے گرد گھومتا تھا۔ اور شخصیت ملک حسین علی نورکا کی تھی۔ ان کا ذہن اور عقل جس طرف کا رجحان اختیار کرلیتا فیصلہ اس کے مطابق ہو جاتا اس وجہ سے بعض فیصلے فریقین کو قابل قبول نہیں ہوتے تھے۔ اگر کچھ لوگ ملک حسین علی کے معاون بن جاتے تو عدالتوں کی راہیں بند ہو جاتیں۔ جب ملک حسین علی نورکا نے سیاست کے میدان میں قدم رکھا اس دن سے ان کی مصروفیات میں اضافہ ہوگیا اور یوں ان کی ذات کئی حصوں میں بٹ گئی وہ ایک باپ بھی تھے، خاوند بھی، زمیندار بھی، مذہبی رہنما بھی اور سیاسی پارٹی کا عہدے دار بھی یہی وجہ تھی کہ ڈیرے پر ان سے ملاقات کئی پھیروں کے بعد ہوسکتی تھی کیونکہ وہ ہروقت مصروف رہتے۔ ان کی وفات کے بعد اب یہ ڈیرہ اب کے بڑے بیٹے ملک علی عباس نورکا چلارہے ہیں۔

حاجی شاہ محمد کا تعلق انصاری خاندان سے ہے۔ آپ دودھ کا کاروبار کرتے تھے آپ کے کام کو بڑا عروج حاصل ہوا اور آپ ایک متمول شخصیت بن گئے۔ بعد میں آپ نے رفاہی کاموں کی طرف توجہ کر دی۔ آپ نے اپنی برادری کے افراد کو ایلیمنٹری ٹیچرز ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ برائے خواتین کے سامنے ایک جگہ پر آباد کرنے کا منصوبہ بنایا۔ ایک وسیع رقبہ خریدا اور محلہ حاجی پورہ کے نام سے یہاں ایک بستی آباد کی اس بستی کے مسائل اور جھگڑوں کے حل کے لئے اپنا ایک ڈیرہ بنایا اور اس کے لیے مخصوص کچھ جگہ پر ستونوں پر چھت ڈالی جس کے نیچے چارپائیاں، پیڑھے اور حقہ کا انتظام تھا۔ آنے والے لوگوں کی خدمت میں دودھ، لسی اور چائے سے تواضہ کی جاتی۔ یہ ڈیرہ رات دن لوگوں کی خدمت میں کام آتا تھا۔ حاجی شاہ محمد فوت ہوگئے مگر ڈیرہ بعد میں باقی رہا۔ اب یہ ڈیرہ نام کا ڈیرہ رہ گیا ہے۔

اسے ڈیرہ کا نام دینا شائد مناسب نہ ہو۔ یہاں تو ڈیرے سے بڑھ کر کام ہوتے ہیں۔ اگر ڈیرے پر اجنبی مسافروں کو کھانے اور ٹھہرانے کی سہولت میسر آتی ہے تو یہاں اس سے بڑھ کر انتظام ہے۔ اگر ڈیرے پر بعض جھگڑوں کے فیصلے ہوتے ہیں تو وہ فیصلے بھی یہاں ہو جاتے ہیں۔ دوسروں کے ڈیروں پر شاید بیان بازی میں غلو ہو جائے مگر یہاں دل کی سچی بات کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ جب بھی سچی بات ہوگی فیصلہ کرنا بڑا آسان ہوگا۔ لوگوں کے ڈیروں پر جھگڑوں کے فیصلے ہوتے ہیں مگر یہاں لوگوں کی قسمت کے فیصلے بھی ہوجاتے ہیں۔ یہ ایک ڈیرہ بھی ہے اور لنگر خانہ بھی، خانقاہ بھی اور ایک آستانہ بھی، یہ اعلیٰ حضرت میاں شیر محمد المعروف شیرربانی رحمتہ اللہ علیہ شرقپوری کے زمانہ سے چل رہا ہے۔ حضور ثانی لا ثانی حضرت میں غلام اللہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے ا س کے نام اور کام کو جاری رکھا ان کے بعد فخر المشائخ حضرت میاں جمیل احمد صاحب رحمتہ اللہ علیہ شرقپوری نے اس کی ساکھ کی حفاظت کی۔ صاحبزادہ میاں سعید احمد شرقپوری صاحب کے سیاست میں آنے اور ایم پی اے بننے کے بعد دینوی فیصلوں کے لیے بھی لوگ یہاں آنے لگے۔ مگر صاحبزادہ صاحب ایسے لوگوں سے دامن بچائے رکھتے اور اکثر لوگ اس آس اور امید سے مجروح ہو جاتے۔ ان کے بعد صاحبزادہ میاں جلیل احمد شرقپوری جب ایم این اے اور ضلعی ناظم شیخوپورہ بنے تو اس ڈیرے کی رونق عروج پر پہنچ گئی اور بہت سے سیاسی لوگ یہاں آنے لگے۔ اب بھی اس ڈیرے کا انتظام صاحبزادہ میاں جلیل احمد شرقپوری صاحب چلارہے ہیں۔ اور آنے والے تمام دنیاوی، مذہبی اور سیاسی لوگوں کو خوش آمدید کہتے ہیں۔

حاجی اکبر علی مرحوم ایک خاندانی چودھری تھے۔ آپ کے بزرگ شروع سے اپنا ڈیرہ بنائے ہوئے تھے۔ اولا آپ کے دادا آپ ملک امام دین ان کے بعد آپ کے والد ماجد ملک حکم دین اور پھر ان کی وفات کے بعد آپ کے سب سے چھوٹے بیٹے حاجی اکبر علی مرحوم نے اس ڈیرے کی ساکھ کو قائم رکھا۔
پہلے یہ ڈیرہ ان کے آبائی گاوں ڈھانہ کھوکھراں میں تھا۔ مگر جب 1978 میں حاجی اکبر علی یہاں شرقپور شریف میں آگئے تو یہ ڈیرہ بھی یہاں منتقل ہو گیا۔ حاجی اکبر علی کا انتقال 14 اگست 1984 میں ہوا تو اس ڈیرے کا کام ان کے بڑے بیٹے ملک نذر حسین نے سنبھال لیا اور اس ڈیرے کو چلاتے رہے۔ شخصیات کے بدل جانے سے گو ڈیرے کی کارکردگی میں فرق آجاتا ہے مگر اس ڈیرے نے شروع سے اب تک اپنے وقار کو قائم رکھا ہے۔ ملک نذر حسین ایک ٹھنڈے مزاج کا آدمے اور بڑے تحمل اور بردباری سے بات سنتے اور بڑے غور وفکر کے بعد جواب دیتے۔ اس ڈیرے کی کوشش ہوتی کہ فریقین تھانوں اور عدالتوں کے جھنجھٹ سے بچ جائیں اور پنچایتی سطح پر اپنے جھگڑوں کے فیصلے کرسکیں۔
چوری، اغوا، لڑائی جھگڑے اور قتل جیسے معاملات پر اس ڈیرے میں فیصلے ہوتے۔ ان کا طریقہ کار کچھ اس طرح کا ہوتا کہ فریقن کی طرف سے اسٹام لکھوایا جاتا جس میں وعدہ کیا جاتا کہ انہیں ڈیرے کا فیصلہ منظور کرنا ہوگا۔ بصورت دیگر مقرر کیا گیا جرمانہ ادا کریں گے۔ یہ ڈیرہ گورنمنٹ ایلیمنڑی سکول کے سامنے ملک نذر حسین کی رہائش گاہ میں قائم ہے۔ جھگڑوں کے فیصلوں کے علاوہ مہمانوں اور مسافروں کی خدمت کی بھی کی جاتی ہے۔

صفدر علی ملکانہ کا رحجان اپنی ابتدائی زندگی میں ہی ان کاموں کی طرف تھا جو بڑے بڑے لوگ کرتے ہیں۔ ان کا دادا اور تایا پرانی بھینی میں چودھری اور سردار تھے۔ اور خوب ڈیرہ چلاتے تھے۔ قیام وطعام اور حقہ پانی کا انتظام ان کے ڈیرے کی صفت رہا ہے۔ مگر چونکہ صفدر علی ملکانہ کے والد ملک اکبر علی ایک سرکاری ملازم تھے اور وہ ڈیرے میں وقت نہ دے سکتے تھے اور ویسے بھی انہوں نے اپنی رہائش شرقپور میں منتقل کرلی تھی۔ صفدر علی ملکانہ اس وقت ایک طالب علم تھے مگر ڈیرے داری نظام کی اکثر باتیں ان کے دل و دماغ میں محفوظ تھیں۔ چودھراہٹ ان کے خون میں رچی بسی تھی۔ سکول کی زندگی اس طبیعت کے خلاف ثابت ہوئی اور آٹھویں جماعت میں ہی سکول کو خیر باد کہہ دیا۔ اور برائی کو سمجھنے کے لیے برائی کے بالکل قرب پینچ گیا۔ وہ چاہتا تھا کہ بڑے لوگوں کے سارے داو پیچ اور کرتوت اس کی سمجھ میں آجائیں تا کہ جب وہ حق وباطل میں تمیز کرنے لگے تو باطل کی باتوں، اس کے روپ اور فریب کے چنگل میں نہ آئے۔ وہ سیاست کے میدان میں آگیا اور اپنا ڈیرہ بنا کر اس روایت کو پھر سے زندہ کیا۔ جو ان کے دادا اور تایا نے قائم کی ہوئی تھی۔ صفدر ملکانہ کا ڈیرہ محلہ چاہ چوبچیاں والا میں ہے اور رات گئے تک اس ڈیرے کا حقہ گرم رہتا ہے۔ اور محفل دوستاں کی رونق آباد رہتی ہے اور جھگڑوں کے فیصلوں پر گفتگو ہوتی رہتی ہے۔ سنا گیا ہے جو فیصلے بڑے بڑے ڈیروں میں نہیں ہوتے وہ اس ڈیرے میں ہو جایا کرتے تھے۔۔ زمینوں کے جھگڑے، لڑائی مار کٹائی، چوریاں اور اغوا کے فیصلے کرنے میں صفدر علی ملکانہ بڑے ماہرہیں۔

یہ ڈیرہ یوں تو عیسائی برداری کے مفادات کے لیے قائم ہے۔ ا ن کے جھگڑوں کے فیصلے یہاں بیٹھ کر کئے جاتے ہیں۔ مگر غیر عیسائی لوگ بھی اس ڈیرے میں بیٹھے دکھائی دیتے ہیں۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ڈیرے دار دل میں انسانیت کا احساس رکھتے ہیں۔ انسانی ناطے کے حوالے سے ایسے لوگوں کے کام آتے ہیں جو برے حالات کا شکار ہوں۔ خواہ وہ مسلمان ہوں یا عیسائی۔ چودھری برکت مسیح رنگا مسیح کا بیٹا ہے جسے اچھی گفتگو کا سلیقہ خوب آتا ہے۔ باپ رنگا مسیح بھی کھڑکے والا چودھری تھا اور لوگون کے کام آتا تھا۔ یہ ڈیرہ اسی کا بنایا ہوا ہے۔ اب باپ کی گدی پر بیٹھ کر اس کا بیٹا چودھری برکت مسیح اس ڈیرے کا بھرم رکھے ہوئے ہے۔ برکت مسیح ایک متوسط گھرانے کا چشم و چراغ ہے۔ غریبوں کے حالات سے آگاہ ہے لہذا جو بھی اس کے پاس آتا ہے دل و جان سے اس کے کام آنے کی سعی کرتا ہے۔ تھانے تحصیل جانے میں کوئی بہانہ نہیں بناتا۔ چودھری برکت مسیح شرقپور کی ٹاون کمیٹی کی غیر مسلم نشت پر ہر بار الیکشن میں حصہ لیتا ہے اور کامیابی حاصل کرتاہے۔ اس کی برادری بھی اس کے ساتھ پورا پورا تعاون کرتی ہے۔