حقیقت میں ڈیرا اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں مسافر لوگ کچھ دیر یا کچھ دنوں تک قیام کرتے ہیں۔ یہ لوگ ایک بڑا خیمہ بھی لگاتے ہیں۔ جس کے سائے میں لوگ ایک ہی خاندان کے افراد بن کر رہتے ہیں یا الگ الگ خیمے بھی لگا لیتے ہیں اور کسی ایک امیر کے حکم کے تابع ہو کے رہتےہیں۔
اگر دنیا کو ایک عارضی قیام گاہ مان لیا جائے تو اس میں ہر آدمی مسافر ہے لہذا اس دنیا کی ہر چھوٹی بڑی بستی ایک ڈیرہ ہی ہے۔ بستیوں کے آباد ہونے میں یہ بات بڑی واضح ہے کہ آباد کرنے والے لوگ اولا ایک ڈیرہ بنا کررہے اور وہ ڈیرہ ان لوگوں کے سربراہ کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔۔ ڈیرہ اسماعیل خان، ڈیرہ غازی خان، ڈیرہ دون وغیرہ کے نام ایسے ہی پڑے تھے۔ آج یہی ڈیرے بڑے شہر یا ضلعے یا ڈوثرنیں بن گئے ہیں۔
جب ڈیروں سے بستیاں بن گئیں تو ان بستیوں اور بستی کے لوگوں کے بے شمار مسائل پیدا ہوئے اور ان مسائل کے حل کے لئے بستی کے معتبر لوگ نمایاں ہوئے۔ لوگ اپنے مسائل لے کر ان کے پاس آئے۔ ایسے لوگوں میں ہر قماش کے لوگ ہوتے تھے۔ لہذا انہیں گھر کے ماحول سے الگ رکھنے کے لئے الگ کشادہ جگہیں بنائی گئیں۔
ان جگہوں میں نہ صرف بڑے بڑے فیصلے کئے جاتےتھے بلکہ اجنبی مسافر قیام اور طعام کی سہولت بھی حاصل کرتے تھے۔ کام کے اعتبار سے یہ جگہ بڑی اہم ہوتی مگر اس جگہ کا مالک اسے بطور انکسار ڈیرہ کہتا تھا۔
ازاں بعد یہ ڈیرے پنجائت گاہیں بن گئیں جہاں بڑے عظیم فیصلے ہونے لگے اور ڈیروں کی شہرت دور دور تک ہونے لگی۔ اس طرح دوسرے علاقوں کے مستغیث بھی ان ڈیروں میں آنے لگے۔ ڈیروں کے نظام کا دوسرا نام پنچائتی نظام ہے ۔ پنچائتی نظام کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ جس پر حکومت کا کوئی دباو نہیں ہوتا۔ ایک گاوں کے چند سرکردہ عزت والے اور حساس والے بندے ایک پنچائت یا ڈیرے بنا لیتے ہیں اور وہاں کے لوگوں کے درمیان جو چھوٹے موٹے جھگڑے وقوع پذیر ہوتے ہیں ان کے فیصلے وہ خود ہی کر لیتے ہیں۔
اس نظام سے نہ صرف لوگوں کا وقت بچتا ہے بلکہ روپیہ بھی بچ جاتا ہے۔ اگرچہ حکومت کی عدالیتں کام کررہی ہیں مگر ڈیروں کی اہمیت اورحثیت اپنی جگہ مسلم ہے۔
شرقپور شریف میں ایسے ڈیرے تھے جن سے بڑی اچھی اچھی روایات وابستہ تھیں مگر اب تو وہ نام کے ڈیرے رہ گئے ہیں۔ یہ ڈیرے جن مقاصد کے لیے بنائے گئے تھے وہ معدوم ہیں۔ چند ڈیروں کا ذکر کیا جاتا ہے۔