شرقپور کے قبرستان

یہ وہ قبرستان ہے جس سے قدامت اور اولیت کا نام وابستہ ہے۔ ایک مدت سے اس کا نام عیدگاہ والا قبرستان ہے۔ مگر عید گاہ سے پہلے اس کو حافظ محمد اسحاق والا قبرستان، حافظ محمد جمال والا قبرستان یا قبرستان بابا گلاب شاہ بھی کہا جاتا رہا ہے۔
اب دربار بابا گلاب شاہ اور قبرستان کے درمیان مکان حائل ہوگئے ہیں ورنہ ان مکانوں سے پہلے یہ قبرستان دور سے دکھائی دیتا تھا۔ قبرستان کے جنوبی جانب ایک کنواں ہے جیسے جسے حافظ محمد اسحاق نے 1178 ہجری میں بنوایا تھا۔ اس میں ایک کتبہ لگا ہوا تھا جس پر کندہ تھا۔ بانی چاہ فقیر حافظ محمد اسحاق۔ یہ کتبہ ڈاکٹر میاں مقصود احمد متولی دربار حافظ محمد اسحاق اور ان کے بھائی میاں منظور احمد کے پاس اب بھی محفوظ ہے۔ دونوں بھائی حافظ محمد اسحاق کے خاندان میں سے ہیں۔
خسرہ نمبر 1457 کے مطابق اس قبرستان کا رقبہ 2 کنال 4 مرلہ ہے ۔ شرقپور شریف کے بانی لوگوں کی بہت سے قبریں یہاں موجود تھیں۔ مگر اب صرف 104 قبروں کے نشان موجود ہیں۔ قبروں کے درمیان حافظ محدم اسحاق کا مزار ہے ۔ لوح مزار پر بانی شرقپور لکھا گیا ہے۔ مزار کے شمالی جانب یعنی سرہانے کی طرف برآمدے میں حافظ محمد جمال کی قبر ہے ان کی اولادیں اب تک موجود ہیں وہ انہیں بانی شرقپور بھی کہتی ہیں۔ ان کی قبر پر بھی بانی شرقپور کے الفاظ لکھے ہوئے ہیں مگر ان کی قبران کے اعزاز کے مطابق نہیں بنا سکے ہیں۔
قبرستان میں ون کے دو درخت ابھی تک موجود ہیں۔ ان دونوں کی عمر بھی انتی ہی ہے جتنی کہ اس قبرستان کی۔ اس قبرستان میں اس وقت زیادہ قبریں حافظ محمد اسحاق کے خاندان کی ہیں۔
قبرستان کے غربی جانب تھوڑے فاصلے پر لاھور جڑانوالہ روڈ واقع ہے۔ قبرستان کے چاروں طرف مکانات بن چکے ہیں۔ قبرستان میں آئیں تو بلندی اور پستی کا ایک عجیب منظر دکھائی دیتا ہے۔ زندگی کی حقیقت پاجانے والے تہہ زمین میں خاموش لیٹے ہوئے ہیں۔ اے کاش قبروں کے اس قدر قریب ہو کر ہی ہم فلسفہ حیات و موت کی حقیقت کا پاسکتے۔

پرانا پیلس سینما اور موجودہ پیلس شادی ہال کے قریب سے جوراستہ بھوئے ڈھکو کو جاتا ہے اس پر کوئی ایک فرلانگ کے فاصلے پر دائیں جانب ایک بڑا قبرستان ہے۔ یہ بھی پرانے قبرستانوں میں سے ہے ۔ اسے نتھن دھنن والا قبرستان کہتے ہیں۔ اس نام کی وجہ تسمیہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ اس وقف زمین کے آس پاس حافظ محمد موتی کی زمین تھی یہ نسبتا چھوٹے قد کا تھا مگر بڑا دلیر تھا اور قدرتی طور پر جب بات کرتا تو اس کے نتھنے پھول جاتے تھے۔ اس کا دادا حافظ برہان اسے پیار سے نتھن بیٹا کہتا تھا۔ پھر یہ اسی نام سے شہرت پاگیا۔ یہاں تک کہ بوڑھے ہونے پر بھی اسے بابا نتھا ہی کہا جاتا رہا۔ ان کا کھوہ بھی نتھن والا کھوہ کہلاتا ہے۔
قبرستان کے قریب کی زمین بابے نتھے کی زمین کہلاتی تھی۔ انہی زمینوں کے پا س دریائے راوی کی پرانی گزر گاہ کے باعث کچھ نشیبی زمین تھی جسے پنجابی میں دھن کہا جاتا ہے۔ اس دھن کو بھی بابے نتھے کی دھن کہا جانے لگا۔ اور اس مناسبت سے اس قبرستان کا نام بابے نتھے کی دھن والا قبرستان یا بعد میں نتھن دھنن والا قبرستان کہا جانے لگا۔
اس قبرستان کا رقبہ خسرہ نمبر 199 کے مطابق 36 کنال 8 مرلے ہے۔ ڈاہراں والا قبرستان کی نسبت زیادہ لوگ اس قبرستان میں اپنے جنازے دفن کرتے تھے۔ یہاں تک کہ قبر کے لئے جگہ نہیں ملتی تھی۔ مگر جب میاں صاحب کے قبرستان کی طرف لوگوں کا رحجان ہوا تو ادھر قبروں کے لئے جگہ میسر آنے لگی۔ آج صورت حال یہ ہے کہ کچی قبریں ہموار ہوگئی ہیں اور یوں لگتا ہے کہ نئی قبروں کے لیے کافی جگہ خالی ہوگئی ہے۔ قبرستان کے قریب ایک نئی بستی نئی بھینی کے نام سے آباد ہوگئی ہے۔ اس بستی والوں کے جنازے اس قبرستان میں دفن ہونے لگے ہیں۔ قبرستان کی مغرب کی جانب ایک مسجد اور اس ے ملحق ایک کمرہ بنا ہوا ہے اور ایک کںواں بھی ہے۔ بڑھ کا ایک بہت بڑا درخت بھی ہے۔ سارے قبرستان میں بہت سے ان گنت درخت پروان چڑھ رہے ہیں۔ وسط میں ایک پیپل کادرخت بھی ہے۔ کجھوروں کے 22 کے قریب درخت مختلف جگہوں پر کھڑے تھے۔ شہتوت اور بیری کے درخت بھی ہیں۔ شمال مغرب کے کونے پر ایک نلکا بھی لگا ہوا ہے۔ مگر خشک رہتا ہے۔ قبرستان میں بہت سے پختہ قبریں بھی ہیں۔ بعضوں پر چپس، ماربل اور چینی کی ٹائیلیں لگی ہیں۔ میاں محمد رفیق، میاں جلال دین شیخ، حاجی چراغدین، ملک بشیر احمد آبہ، بابا نور محمد پھرا، حاجی ہدایت علی زرگر جیسے عظیم لوگ یہاں تہہ زمین میں ابدی نیند سوئے ہوئے ہیں۔
ایک جگہ احاطہ مونگیاں بھی دکھائی دیتا ہے۔ اس احاطہ میں میاں محمد امین مونگہ وہ نیک سیرت انسان موجود ہے جس کی قبر پر کھڑے ہوکر اعلیٰ حضرت میاں صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا تھا کہ یہاں ایسے ایسے لوگ مدفون ہیں جن کی روحیں اب بھی گھروں کی خبر گیری کرتی رہتی ہیں۔ ان میں سے ایک میاں محمد امین مونگا بھی ہے۔ دسویں محرم کو قبروں پر جو متی ڈالنے کا رواج ہے اس کے تحت لوگوں نے قبرستان کے اندر ہی مٹی کھود کر گڑھے سے بنادیئے ہیں۔ بارش کا دنوں میں ان میں پانی بھر جاتا ہے قبرستان کی حفاظت کا کائی معقول انتظام نہیں۔ بہار کے موسم میں لوگوں کے مویشی یہاں چراکرتے ہیں۔ جو کہ قبرستان کے تقدس کے خلاف ہے۔
بذریعہ معلومات محمد رفیق جوڑا، حاجی فضل احمد مونگا۔

قبرستان نتھن دھنن کے جنوب مشرق میں کوئی 2 کنال کے رقبے میں ایک چھوٹا سا قبرستان ہے۔ یہ قبرستان شرقپور شریف کے بعض سادات کا ذاتی قبرستان ہے۔ اس قبرستان میں کسی دوسری برداری کے اپنا جنازہ دفن کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ اس وقت یہاں تقریبا 70 کے قریب قبروں کے نشان موجود ہیں۔
قبرستان کے بائیں گوشے پر ایک چبوترے میں پیر سکندر علی شاہ کی قبر چار دیواری میں بنی ہوئی ہے۔ اس قبر کے دائیں بائیں پہلو میں دو قبریں اور بھی ہیں۔ تقریبا سب ہی قبریں کچی ہیں۔ چبوترے کے کونوں پر کپڑے کے مختلف رنگوں کے جھنڈے لگے ہوئے ہیں۔ مختصر سا میلہ بھی منعقد ہوتا ہے۔ ایک گوشے میں قبرستان کے مجاوروں کا ایک گھرانہ رہائش پذیر ہے۔ مگر ان لوگوں کی قبرستان کے تقدس کا کچھ پتہ نہیں ہے۔
بذریعہ معلومات حافظ عبدالواحد شرقپوری۔

شرقپور شریف کے غربی جانب ایک بہت بڑا قبرستان ہے آج اسے میاں صاحب والا قبرستان کہا جاتا ہے۔ لیکن پون صدی پہلے اسے ڈاہراں والا قبرستان کہا جاتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ پرانے بوڑھے بابے آج بھی اسے ڈاہراں والا قبرستان کہتے ہیں۔ ڈاہر کی وجہ تسمیہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ شرقپور شریف کے آؓباد ہونے سے پیشتر یہاں درندہ صفت اور جرائم پیشہ لوگ آباد تھے ان کے سروں اور ڈاڑھی مونچھوں کے بال بے تحاشہ بڑھے ہوئے تھے۔ انہیں دیکھنے سے خوف آتا تھا۔ جو آدمے بھی ادھر سے گزرتا یہ لوگ اسے پکڑتے اور چیر پھاڑ کر کھا جاتے۔ قبروں سے مردے نکال کر بھی کھا جاتے تھے۔ ان کی بے تحاشا بڑھی ہوئی دراڑھی کے باعث انہیں ڈاڑھے یا ڈارہے یہا جاتا تھا جو آہستہ آہستہ ڈاہرے بن گیا۔
لیکن تحقیق کے مطابق اصل لفظ ڈہر تھا جو ڈاہر سے بنا۔ ڈہر اس نشیبی جگہ کو کہتے ہیں جو دریا کے دامن میں ہو اور برساتی نالے کی شکل اختیار کرگئی ہو۔ روایات میں آتا ہے کہ یہ جگہ کسی زمانے میں دریائے راوی کی گزرگاہ تھی اور دریا ہٹ جانے کی بعد یہاں کوئی نشیبی جگہ رہ گئی ہوگئی۔ جہاں یہ لوگ اپنی جھگیوں میں رہتے تھے۔ اس وجہ سے اسے ڈاہروں والی جگہ کہا جاتا تھا اور جب اس جگہ کو قبرستان کے لیے وقف کیا گیا تو اسے ڈاہراں والا قبرستان کہا جانے لگا۔
شروع میں لوگون کا زیادہ رحجان ادھر جنازے دفن کرنے کا نہ تھا وہ مردے زیادہ نتھن دھنن والے قبرستان میں دفن کرتے تھے۔ اعلیٰ حضرت میاں شیر محمد صاحب رحمتہ اللہ علیہ شرقپوری اپنی زندگی میں اس قبرستان میں فاتحہ خوانی کے لیے آیا کرتے تھے۔ اور جس جگہ آپ کا مزار ہے وہاں ایک ون کا درخت تھا۔ آپ اس کے چھاوں میں بیٹھ کر درودووظائف پڑھا کرتے تھے۔ اور اسی جگہ آپ نے خود کو دفن کی کرنے کی وصیت فرمائی تھی۔ میاں صاحب کا مدفن بن جانے کے بعد لوگوں کا رحجان ادھر ہوگیا اور اب عقیدت مند اپنے جنازوں کو باہر سے لا کر بھی ادھر دفن کرتے ہیں۔ امیر لوگ پختہ قبریں بناتے ہیں۔ پختہ قبروں پر چینی اور ماربل کی ٹائلیں لگی ہوئی ہیں۔ ان کے نیچے کیسے کیسے عظیم لوگ ابدی نیند سورہے ہیں۔ مال و دولت کے بادشاہ، طاقت وقوت کے مالک، اہل فن، اہل علم، اہل سیاست، حسن وزیبائی کے پیکر، اہل اللہ، سالکین، اصفیا، اتقیا یہ سب یہ دنیا ہمارے حوالے کر کے چلے گئے ہیں۔ مگر ایک سوچ اور فکر ضرور دے گئے ہیں کہ ہماری قبروں کے نشان دیکھنے والو تم بھی تہہ زمین میں دفن ہو جاوگئے۔ مگر اپنی قبر پر کتبہ لگوانے کسے پہلے وہ صفات پیدا کرنا کہ تہمارا نام عزت اور احترام سے لیا جائے۔
قبرستان کے بیچ میں اعلیٰ حضرت میاں شیر محمد شیرربانی شرقپور رحمتہ اللہ علیہ کا مزار اقدس ہے آپ کے مزار اقدس پر دن رات زائرین کا ہجوم رہتا ہے۔ قرآن پاک کی تلاوت اور اذکار کرنے والے سرنگوں ہوکر بیٹھے رہتے ہیں۔ دعائیں مانگی جاتی ہیں اور فیوض و برکات سے جھولیاں بھری جاتی ہیں۔ اس ولی اللہ پر رحمت کا نزول ہورہا ہے۔ یقینا اس رحمت میں سے حصہ اردگرد کی قبروں والوں کو مل رہا ہے۔
مزار شریف کے اندر اعلیٰ حضرت میاں صاحب کے بائیں پہلو میں برادر اصغر حضرت میاں غلام اللہ المعروف ثانی لا ثانی رحمتہ اللہ علیہ اور دائیں پہلو میں آپ کے بھتیجے حضرت میاں غلام احمد رحمتہ اللہ علیہ آرام فرما رہے ہیں۔
ملک مظفر علی، محمد امین شرقپوری بانی رسالہ بچوں کا باغ، حاجی فصل الہی مونگہ، محمد اسماعیل ڈھنڈا، حضرت سید الف شاہ، قاری محمد ابراہیم، حافظ مہدی حسن، عبداللہ شاہ صاحب، میاں اللہ دتہ مرحوم عارف حسین انجم، ملک حسن علی بی اے، ملک محمد اسماعیل مرحوم، حاجی ظہیر نیاز بیگی، عاشق شیرربانی حاجی برکت علی صوفی ساندہ والے، اور مولانا اکبر علی مرحوم جسیے غلامان شیرربانی خاموش لیٹے ہوئے ہیں۔ اپنے اپنے وقت کے کیا کیا عظیم لوگ تھے جن کی عظمت وشہرت کے ڈنکے بجتے تھے۔
حضرت میاں صاحب کے مزار کے ساتھ ایک چھوٹا سا مزار حضرت میاں جلال دین چشتی رحمتہ اللہ علیہ اور اس سے زار آگے حضرت سائیں شہباب الدین کا مزار بھی اس قبرستان میں واقع ہے۔ غرضیکہ حدنگاہ تک یہ شہر خاموشاں آباد ہے۔ لوگ اپنے عزیزوں کو کندھوں پر اٹھا کر لاتے ہیں اس مٹی کے سپرد کرے کے چلے جاتے ہیں۔ اور یہ سلسلہ جب تک شرقپور آباد ہے تب تک جاری رہے گا۔۔ جو راستہ دربار شریف کے جاتا ہے اس کے شروع میں ایک مسجد آتی ہے جو اعلیٰ حضرت میاں صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی تعمیر کردہ ہے مسجد کے بازو میں ایک کنواں ہے اور اس کے ساتھ میں ایک لمبی وضو گاہ بنی ہے اس سے قبل طہارت خانے بھی ہیں۔
قبرستان کے شمالی جانب ایک بڑا آہنی شیڈ بنا ہوا ہے جہاں حضرت قبلہ ثانی صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے عہد میں اعلیٰ حضرت میاں صاحب کا عرس ہوا کرتا تھا۔ جب سے محکمہ اوقاف نے دربار شریف پر قبضہ کیا یہ جگہ جنازہ گا کے طور پر استعال ہونے لگی ہے۔ قبرستان کے جنوبی جانب سائیں شہاب الدین کے مزار کے پاس بھی ایک چھوٹی سے مسجد بنی ہوئی ہے۔ قبرستان کے مشرقی جانب شہر کی آؓبادی کی دیوارویں چھونے لگی ہیں۔ قبرستان کا رقبہ خسرہ 2115 کے مطابق 6 ایکٹر 8 مرلہ تھا۔ مگر ملک برداران ملک حسن علی بی اے جامعی، ملک عمردراز مرحوم وغیرہ نے 2 کنال 10 مرلے جگہ مزید خرید کر آپنے اعزہ اقارب کی قبروں کے لیے وقف کردی ہے۔ اس طرح اب اس قبرستان کا کل رقبہ 6 ایکٹر 2 کنال اور 18 مرلے کے قریب ہوگیا۔
قبرستان میں اب جگہ نہ ہونے کے برابر رہ گئ ہے اور قبروں کے اوپر قبریں بننا شروع ہوگئ ہیں۔ اہل شرقپور کو چاہیے کہ سب ملکر پیشے اکھٹا کر کے الگ سے مزید جگہ لیں تا کہ لوگ اپنے مردے ادھر دفنا سکیں۔
بذریعہ معلومات بابا غلام یٰسین بولا۔

چاہ چبچیاں والا کے بالکل قریب حضرت مولانا حافظ محمد یعقوب چشتی کا مزار مبارک ہے۔ جسے حجرے والا دربار کہا جاتا ہے۔ اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ حافظ محمد یعقوب نے اپنی خانقاہ اس جگہ پر بنائی اور ایک سادہ اور کچا حجرہ بھی بنایا تھا۔ آپ اکثر وقت میں اسی حجرہ میں گزارتے تھے۔ یہ حجرہ ان کے لیے بطور گھر بھی تھا اور بطور عبادت گاہ بھی اور جب 1170 ہجری میں آپ کا وصال ہوا تو اسی حجرہ میں آپ کو مدفون کیا گیا۔
اب اس دربار کو پختہ تعمیر کر کے چھت پر لنٹر ڈال دیا گیا ہے حافظ محمد یعقوب کی قبر درمیان میں ہے لوح مزار پر یہ عبارت لکھی ہوئی ہے۔
حضرت حافظ محمد یعقوب بن حافظ محمد اسمعاعیل چشتی عشرہ قاری
جد امجد ولی کامل حضرت میاں محمد عبداللہ المعروف میاں بلہا فقیر کامل حضرت میاں محمد دین۔ حضرت میاں صدردین
تاریخ وصال 1170ھ حافظ محمد یعقوب کے علاوہ مندرجہ ذیل دیگر قبور بھی ہیں۔
حضرت میاں محمد عبداللہ المعروف میاں بلہا، حضرت میاں محمد دین بن میاں علی محمد نوشاہی، حضرت میاں غلام رسول ولد میاں علی محمد، مسماۃ میر النسا بنت حضرت میاں محمد دین، مسماۃ رحیم بی بی بنت حضرت میاں دل محمد، حضرت میاں صدر دین بانی مسجد گلبن نور المعروف ٹاہلی والی، اہلیہ حضرت میاں صدر الدین۔ دربار شریف کے باہر نوشاہی خاندان کی قبریں ہیں۔ جن میں پختہ بھی ہیں اور کچی بھی باہر کے احاطہ کی کل قبریں تقریبا 25 کے قریب ہیں۔ ان قبروں میں بڑے عظیم لوگ مدفون ہیں۔ ڈاکٹر گوہر نوشاہی کی اہلیہ محترمہ ڈاکٹر ممتاز گوہر بھی اسی قبرستان میں مدفون ہیں۔ جو ایم اے پی ایچ ڈی تھیں اور پروفیسر تھیں۔ اور بہت سی تحقیقی کتابوں کی مصنفہ تھیں۔ ان کی قبر کے ساتھ ایک دروازہ مسجد کی جانب کھلتا ہے۔ جس کے اندر مسجد سےملحقہ ابو الخادم مولانا محمد حیات نوشاہی جو کہ مصنف گلزار نوشاہی تھے کا مزار ہے۔ قبر پر مایہ ناز خطاط صوفی خورشید عالم خورشید راقم کے ہاتھ کا لکھا ہوا کتبہ ہے۔ مولانا محمد حیات صاحب، ڈاکٹر گوہر نوشاہی اور میاں خادم میراں نوشاہی کے والد تھے۔ قبرستان کی چاردیواری 7 فٹ اونچی پختہ بنائی گئی ہے۔ جس کے باعث یہ قبرستان بڑا محفوظ ہے۔ آہنی گیٹ لگا ہوا ہے اور گیٹ کے پاس ہی ایک مسجد بنی ہوئی ہے۔ کھوہی اور نلکا بھی ہے۔ قبرستان میں بڑھ کے کافی پرانے درخت ہیں۔ جن میں جامن کے درخت بھی ہیں۔ ان درختوں نے قبرستان کو چھاوں مہیا کی ہوئی ہے۔ قبرستان کی چار دیواری اور گیٹ کی تعمیر 1410 ہجری بطابق 1190 عیسوی میں کی گئی تھی۔ قبرستان کا رقبہ خسرہ نبمر 654 کے مطابق 19 مرلے ہے۔
نوٹ
تاریخ شرقپور کے حوالے اور عام روائت کے مطابق حافظ محمد یعقوب، حافظ محمد اسحاق کھ بھائی ہیں۔ مگر آپ کے مزار پر آپ کی ولدیت محمد اسماعیل چشتی لکھی ہوئی ہے۔ جس سے یہ گمان ہوتا ہے کہ یہ دونوں بھائی نہ ہوں گئے۔ تاہم علامہ نصرت نوشاہی صاحب کے فرمانے کے مطابق یہ دونوں حضرات آپس میں بھائی ہیں اور ان دونوں کی ولدیت شیخ محمد قائم ہے۔ جوکتبے پر لکھی گئی ہے۔ وہ بغیر تحقیق کے اور غلط ہے۔ ان کتبوں کی عنقریب درست کیا جائے گا۔ تاہم یہ کتبے 1190 کے لگے ہوئے ہیں۔ مگر ابھی تک درستگی نہیں کروائی گئ اور شاید یہ کوتاہی کا عمل آئندہ بھی رہے۔
بذریعہ معلومات علامہ نصرت نوشاہی صاحب۔

موجودہ ڈسٹرکٹ ہسپتال شرقپور کی پرانی عمارت اور ٹیلیفون ایکسچینج سے ملحق حضرت میاں محمد برخودار نوشاہی کا دربار ہے۔ آپ نے جب یہاں ڈیرہ لگایا تو ایک بڑھ کا درخت لگایا اور ایک کھوہی تعمیر کی۔ کھوہی کو چھوٹے رہٹ میں تبدیل کر دیا گیا۔ چونکہ اس کھوہی کو ٹنڈوں والی کھوہی کہا جانے لگا اور اس کے بڑھ کے درخت کو ٹینڈوں والی بوہٹر اس مناسبت سے اس کے احاطے کے قبرستان کو ٹینڈوں والی بوہٹر والا قبرستان کہا جانے لگا۔ بڑھ کے درخت نے تقریبا سارے رقبے کو سایہ مہیا کردیا ہے۔ موجودہ متولیوں نے قبرستان کے احاطے میں پھول کاشت کردیئے ہیں۔ ہر جانب بس پھول ہی پھول ہیں۔ اس مناسبت سے اب اگر اسے پھولوں والا قبرستان کہا جائے تو ییجاہ نہ ہوگا۔ قبرستان کے نشان محفوظ ہیں جن میں دو قبریں پختہ ہیں اس دربار کے متولی خود اپنے جنازوں کو میاں صاحب والے قبرستان میں دفن کرتے ہیں۔
بذریعہ معلومات سائیں محمد علی

حضرت شاہ محمد مراد اولیائے کاملین میں سے ہیں۔ سلسلہ طریقت کے اعتبار سے آپ قادری نوشاہی ہیں۔ آپ کی آمد شرقپور شریف کی آبادکاری کے ابتدائی دور میں ہے۔ جہاں آپ کا مزار ہے یہیں آپ نے اپنی خانقاہ بنائی اور تبلیغ دین کاکام شروع کیا۔ آپ شہرت اور ناموری کو ناپسند فرماتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ آپ نے اپنی خانقاہ کو شہرت اپنے خلفیہ حضرت میاں ہرنی شاہ کے نام پر دی۔
بقول حضرت علامہ نصرت نوشاہی صاحب شرقپوری کے آپ کے مزار کے گرد ایک قبرستان تھا۔ جو قبرستان میاں ہرنی شاہ کہلواتا تھا۔ اس کے ثبوت میں فرماتے ہیں کہ جب کھبی تعمیر مکانات کے سلسلہ میں کھدائی کی جاتی ہے تو انسانی ہڈیاں برآمد ہوتی ہیں۔
مگر آبادی نے اس قبرستان کو محدود کر کے اس کی جگہ چھیننی شروع کردی اور بالآخر یہ اس قد محدود ہوگیا کہ آج یہ قبرستان تین چار مرلہ کے رقبے تک رہ گیا ہے۔ یہ قبرستان شہر کے اندر محلہ حضرت میاں ہرنی شاہ میں واقع ہے۔ آپ کے مزار کے محدود احاطے میں آپ کے خلیفہ حضرت میاں ہرنی شاہ بن حضرت عبدالرحمان رحمتہ اللہ علیہ آپ کے دوسرے خلیفہ حضرت میاں نیک محمد بھی اسی احاطہ میں آرام فرما رہے ہیں۔ دربار کے ساتھ ملحق ایک قدیمی مسجد ہے اور کچھ کشادہ جگہ جہاں مذہبی تقریبات اور عرس کے موقع پر محفل سماع کا انعقاد بھی کیا جاتا ہے۔ پانچ ہاڑ کو آپ کا عرس منعقد کیا جات ہے۔ اس موقعہ پر سماع کا اہتمام خصوصی طور پر کیا جاتا ہے۔ آداب کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے۔ یہ تقریب پروقار طریقے سے منائی جاتی ہے محافل پر تاثیر ہوتی ہیں۔ اللہ کرے اس تقریب کی پاکیزگی قائم رہے اور کھیل تماشوں دھمالوں وغیرہ سے محفوظ رہے۔

حضرت میاں ہرنی شاہ کو اختصار اور احترام کے ساتھ صرف میاں جی بھی کہا جاتا تھا۔ آپ نے اپنی زمینوں پر ایک کنواں تعمیر کروایا جو دوسرے کنووں کی نسبت چھوٹا تھا۔ اسے میاں جی کی کھوہی یا میاں کی کھوہی کہا جاتا تھا۔ جو آہستہ آہستہ میانی کھوہی کہلانے لگی۔ شہر کے اندر جب میاں ہرنی شاہ والا قبرستان محدود ہوگیا اور مزید قبریں بنانے کی جگہ نہ رہی تو آپ کے خاندان والوں نے اس جگہ (میانی صاحب) میں قبروں کے لیے کچھ رقبہ مخصوص کرلیا۔ جو خسرہ نمبر 101 کے مطابق 16 مرلے کا ہے۔ اس قبرستان کو قبرستان میانی صاحب کہتے ہیں۔ یہ عام قبرستان نہیں بلکہ حضرت میاں ہرنی شاہ کی اولاد یا ان کے خلفا کو یہاں دفن کیا جاتا ہے۔
حضرت میاں ہرنی شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے چھوٹے صاحبزادے حضرت میاں معصوم شاہ کا مزار مبارک اسی قبرستان میں واقع ہے۔ علاوہ ازیں آپ کی دیگر اولاد بھی یہاں مدفون ہے۔ حضرت میاں معصوم شاہ کے خاص مرید اور خلیفہ حضرت بابا میاں محکم دین مجذوب (عرف محکی) کی تربت بھی یہیں ہے۔ جنہوں نے اپنی اولاد کو وصیت کی کہ ان کی قبر ان کے مرشد کے پاوں میں بنائی جائے۔ مزار حضرت معصوم شاہ کے پاس ایک چھوٹی سی مسجد آپ کے دور کی یاد دلاتی رہی ہے۔ میانی صاحب کا قبرستان محلہ حکیم گڑھی کی آبادی سے زیادہ دور نہیں۔ بمشکل ڈیڑھ فرلانگ کا فاصلے پر ہوگا۔ درختوں کا گھنا سایہ ہے اور قبروں کے درمیان جھاڑو بھی دی جاتی ہے۔ اس قبرستان کے ملحق شمال مشرق کی جانب ایک دوسرا قبرستان اسی خاندان نوشاہیہ کا ہے جو کم وبیش 2 کنال کے رقبے میں ہے یہ بھی قدیم قبرستان بطور یادگار موجود ہے۔ اس قبرستان میں حضرت میاں نیک محمد کے دادا جان زہدۃ الفقرا حضرت میاں غلام مصطفی اور آپ کے والد ماجد حضرت میاں روشن دین آسودہ خاک ہیں۔
حضرت علامہ نصرت نوشاہی کے جواں مرگ نور نظر حضرت حافط میاں محمد مراد الحسنین بھی یہاں ابدی نیند سوئے ہوئے ہیں۔ حضرت سائیں شہاب دین کے مرشد کامل حضرت میاں غلام حسین نوشاہی اور ان کے دادا بزگوار حضرت میاں کرم الہی بن میاں الہی بخش بھی اس قبرستان میں مدفون ہیں۔
بذریعہ معلومات علامہ نصرت نوشاہی صاحب۔

کوئی 1744 عیسوی کے لگ بھگ کی بات ہے محمد شاہ رنگیلا کا گزر ادھر سے ہوا تھا۔ تھوڑی سی سپاہ بھی اس کے ساتھ تھی۔ ان سپاہیوں میں ایک اللہ والا بھی تھا جس نے اپنے آپ کو چھپا رکھا تھا۔ وہ رجی والا کھوہ کے قریب اچانک بیمار ہو کے مرگیا۔ بادشاہ نے اسے یہیں دفن کرنے کا حکم دے دیا۔ ازاں بعد قربی ایک بستی کے چند جنازے بھی اس قبر کے آس پاس دفن کئےگے۔ اور یوں یہ ایک چھوٹا سا قبرستان بن گیا۔ مگر دوسو سال گزرنے کے بعد دوسری قبریں تو معدوم ہوگئیں مگر اس پہلی قبر کا نشان باقی رہا۔ پاکستان بننے کے بعد اس کھوہ پر کھیتی باڑی کا کام شیخ فیروز دین کرنے لگا۔ ایک دن لاھور سے ایک شخص جس کا نام محمد اشرف بٹ تھا۔ اعلیٰ حضرت میاں شیر محمد رحمتہ اللہ علیہ کے مزار اقدس پر حاضری دینے کی غرض سے حاضر ہوا۔ اس نے کسی شخص سے پوچھا کہ میں نے سنا ہے یہاں کی گو بھی بڑی اچھی ہے۔ میں بطور تحفہ کچھ ایسی گو بھی لینا چاہتا ہوں جسے گندا پانی نہ دیا گیا ہو۔ اس نے اسے شیخ فیروز دین کے کھوہ پر بھیج دیا۔ جہاں سے اسے منشا کے مطابق گو مفت مل گئی۔ گو ابھی توڑی جارہی تھی کہ وہ اس قبر تک پہنچ گیا نہ جانے اسے اس قبر پر کیا تجلیات دکھائی دیں کہ وہ شیخ فیروز دین کو 6 ہزار روپیہ دے گیا کہ اس قبر کو پختہ بنادیا جائے۔ ایک ہفتے کے بعد وہ دوبارہ آیا تو 12 ہزار روپے مزید دیے گیا۔ شیخ فیروز نے اسے اونچے چبوترے پر بنادیا۔ چاردیواری بنا کر لوہے کی گرلیں بھی لگادیں۔ جمعرات کو دیئے بھی جلائے جاتے ہیں۔ کچھ لوگ فاتحہ خوانی کو بھی آجاتے ہیں۔ اس قبرستان کا رقبہ خسرہ نمبر 2442 کے مطابق صرف 5 مرلہ ہے۔ اس وقت صرف ایک ہی پختہ قبر ہے۔ کوئی لوح مرقد نہیں لگی ہوئی ہے نہ مدفون شخصیت کا نام درج ہے اور نہ وفات کا سن۔ چبوترے کے ساتھ ایک نلکا لگا ہوا ہے۔ آس پاس درختوں کی چھاوں کافی ہے۔
بذریعہ معلومات شیخ فیروز دین۔

پرانا پیلس سینما اور موجودہ پیلس شادی ہال کے پاس سے بھوئے ڈھکو کو جانے والے راستہ کے بائیں جانب کوئی دو فرلانگ کے فاصلہ پر حضرت میاں محمد سعید کا دربار ہے ۔ اس دربار کے گرد یہ قبرستان واقع ہے۔ اس کا رقبہ خسرہ نمبر 360 کے مطابق 8 کنال 13 مرلے ہے۔ پورے قبرستان پر بڑھ کے گیارہ درختوں نے خوب سایہ کیا ہوا ہے۔
قبرستان کے شمالی جانب 13 کجھوریں بھی آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔ تقربیا 204 کے قریب موجودہ قبریں دکھائی دیتی ہیں۔ بعض پختہ قبریں بھی ہیں۔ حضرت میاں محمد سعید کے قدموں میں متولیان دربار کی پختہ قبریں ہیں۔ قریب ہی مسجد بنی ہوئی ہے۔ جسے اب نئے سرے سے وسیع کر کے تعمیر کیا جارہا ہے۔ یہ مسجد 18 مرلے پر محیط ہے۔ ہر سال 15 ہاڑ کو یہاں حضرت میاں محمد سعید رحمتہ اللہ علیہ کا عرس مبارک منعقد کیا جاتا ہے۔ پہلے یہ تقریب بڑی پاکیزہ اور موثر ہوتی تھی۔ اب میلہ کی صورت اختیار کرتی جارہی ہے۔ اس تقریب کو پہلے کی طرح سادہ اور پاکیزہ ہی رہنا چاہیے۔
بذریعہ معلومات میاں فقیر محمد صاحب

لاھور جڑانوالہ روڈ پر واقع لال پلی سے ایک رستہ بل کھاتا ہوا شرقپور کی آبادی تک جاتا ہے۔ راستے میں حضرت سید حافظ ہاشم شاہ سندھی کا دربار آتا ہے۔ ان بزرگوں کی یہاں آمد کب ہوئی کوئی پتہ نہیں۔ لوح مزار پر کوئی سن وغیرہ نہیں لکھا ہوا ہے۔ کھبی یہ مزار کچا تھا بعد میں اسے پختہ بنادیا گیا۔ حال ہی میں اس کے گرد تھڑا بنادیا گیا ہے ۔ جس کا پختہ فرش چپس سے بنایا گیا ہے۔ رنگ روغن بھی کیا گیا ہے۔ یہ سارا کام ملک امداد علی پھرا ولد ملک حسن دین پھرا نے کروایا ہے۔ اس مزار کے پاس ایک مسجد بھی زیر تعمیر ہے۔ مزار کے پاس ہی ایک نلکا لگا ہوا ہے۔
یہ وہ مزار ہے جس پر اعلیٰ حضرت میاں شیر محمد رحمتہ اللہ علیہ اکثر حاضری دینے کو آیا کرتے تھے۔ اس مزار کے پاس ایک وسیع قبرستان ہے۔ اسے حافظ شاہ سندھی والا قبرستان کہتے ہیں۔ قبرستان میں زیادہ قبریں کچی ہیں۔ جوقبریں پختہ ہیں ان میں سے اکثر پر کتبے نہیں لگائے گئے۔ حاجی اکبر علی ڈھانے والا اور میاں غلام محمد منہاس اس قبرستان میں ابدی نیند سوئے ہوئے ہیں۔
قبرستان میں کھجوروں کے درخت بہت سے ہیں۔ ایک بڑھ کا درخت بھی ہے۔ اور ون کے درخت بھی دکھائی دیتے ہیں۔ خسرہ نمبر 7350 کے مطابق اس قبرستان کا رقبہ 15 کنال 8 مرلے ہے۔ قبرستان کے پاس ایک بستی حافظ ہاشم شاہ سندھی کے نام سے آباد ہے۔
ساون کی تیسری جمعرات کو ہر سال دو دن کے لیے میلہ لگتا ہے۔ تھیٹر اور سرکس آتے ہیں اور کبڈی بھی ہوتی ہے۔ ایس پاک ہستیوں کے مزارات پر لہوولعب اور کھیل کود کی باتیں نازیبا ہیں۔ ایسے بزرگوں کے عرسوں کی تقریبات پاکیزہ ہونی چاہیں اور پاکیزگی کے ساتھ منائی جانی چاہیں۔ سرکسوں اور کھیل تماشوں کی کیا ضرورت ہے ؟

پانچ قبروں پر مشتمل ایک قبرستان دربار حضرت میاں محمد سعید کی جانب جنوب واقع ہے۔ یہ قبرستان پیلس شادی ہال کے عقب میں کھیتوں کے درمیان واقع ہے۔ بتایاجاتا ہے کہ یہ قبریں پانچ شہدا کی ہیں۔ متولیان دربار حضرت میاں محمد سعید کی روایت کے مطابق سیالکوٹ کے نواح میں کفر واسلام کی ایک جنگ ہوئی۔ اسلام کے ان شیدائیوں کے سرکٹ گئے۔ مگر جانیں نہ نکلیں یہ پانچوں سر بریدہ جسم باہم بغلگیر ہو کر رقص کرتے ہوئے اس جانب آئے اور یہاں آکر گر گئے اور خود بخود مدفون ہو گئے۔
یہ روایت فرین قیاس نہیں بنتی۔ کیونکہ اس سے قبل کفرو اسلام کی بہت سی جنگوں میں بڑے بڑے جلیل القدر مسلمان شہید ہوئے اور وہ وہیں جام ہائے شہادت نوش فرمائے۔ بدروحنین اور احد کی جنگیں دیکھیں، کربلا کے میدان میں شہزادگان امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادتیں آپ کے پیشن نظر ہیں۔ کہیں بھی ایسا محیر العقول واقعہ دیکھنے میں نہیں آیا۔
حضرت علامہ نصرت نوشاہی صاحب کی تحقیق کے مطابق یہ قبریں ان شہدا کی ہیں۔ جن کی جنگ سکھوں کے ساتھ ہوئی۔ یہ شرقپور شریف کے ابتدائی آؓبادکاروں میں سے تھے۔ سکھوں سے نبردآزما ہوئے اور داد شجاعت دیتے ہوئے شہید ہوئے اور یہیں دفن کردیئے گئے۔ یہ قبریں بالکل منہدم ہوچکی تھیں کہ حضرت خواجہ میاں فرزند علی پاکستان بننے کے فورا بعد دسمبر 1948 کی ایک ٹھنڈی صبح کو اچانک اپنے مریدین کے ہمراہ ادھر تشریف لائے اور یہاں آپ نے پانچ لکریں کھینچ دیں۔ فرمایا یہاں شہیدا کی قبریں تھیں۔ پھر کچی قبروں کے نشان بنادیئے گے اور رات کو ان قبروں پر چراغاں بھی کردیا گیا۔
اب یہ قبریں پختہ بنادی گئی ہیں۔ اور چاردیواری کے اندر واقع ہیں۔ جمعرات کو چراغاں کیا جاتا ہے اور لوگ فاتحہ خوانی کے لیے آگے ہیں۔

شرقپور شریف میں مسیحی برادری کے دوقبرستان ہیں۔ ایک چھوٹا قبرستان ہے اور دوسرا بڑا قبرستان۔ چھوٹا قبرستان اب شرقپور کی آؓبادی میں گھرا جارہا ہے۔ یہ قبرستان خسرہ نمبر 1505 کے تحت ایک کنال پانچ مرلہ کے رقبہ پر مشتمل ہے۔ چوک صدیق اکبر سےلاھور جڑانوالہ روڈ کے جاتے ہوئے روڈ جہاں پرانا سینما روڈ کر کاٹ کر چوک بناتی ہے اس کے ایک گوشہ میں یہ قبرستان واقع ہے اب اس کے سامنے پانی والا فلٹر پلانٹ لگ چکا ہے۔ قبرستان کے ایک جانب مسجد فاطمتہ الزہریٰ بن گئی ہے اور قریب ہی جامعہ نبویہ بن چکا ہے۔
اس قبرستان کے رقبے کو محفوظ کرنے کے لیے چاردیواری تعمیر کرنے کی کوشش کی گئی مگر صرف دو دیواریں بن سکیں اور آہنی گیٹ لگ گیا ۔ لیکن دو دیواریں نشان دہی کے نزاع کے باعث نہ بن سکیں۔
یہ قبرستان بڑا قدیمی قبرستان ہے مگر رقبہ تھوڑا ہونے کی وجہ سے نئی جگہ پر نئے قبرستان کی ضرورت محسوس کی گئی۔ جس میں کامیابی ہوئی۔ اب عیسائی برادری کے لوگ زیادہ تر اپنے جنازے نئے قبرستان میں لیجاتے ہیں۔ اس قبرستان کی کچی قبریں معدوم ہوتی جارہی ہیں۔ صرف پختہ قبریں محفوظ ہیں۔ اس وقت 16 کے قریب قبروں کے نشان باقی رہ گئے ہیں۔ جن میں 3 قبریں پختہ ہیں۔
پانی کے لیے سرکاری ٹونٹی لگی ہوئی ہے اسے عام لوگ استعمال کرتے ہیں اور مستعملہ پانی قبروں کے درمیان کیچڑ بناتا رہتاہے۔ قبرستان کی حفاظت کا کائی انتظام نہیں ہے۔ اگر یہی صورت حال رہی تو شاید اس کا رقبہ سکٹرتے سکٹرتے معدوم ہوجائے۔ مسیحی برادری کو اپنے اسلاف کے ان نشانوں کی حفاظت کرنی چاہیے۔
بذریعہ معلومات امام دین مسیح۔

لاھور سے جڑانوالہ روڈ پر واقعہ ڈیرہ ملک سرفراز احمد صاحب کے بائیں جانب ایک پختہ سٹرک بل کھاتی ہوئی پھریوانوالہ کو جاتی ہے۔ اس روڈ پر ٹیلیفون ایکسچینج واقع ہے۔ سڑک کی پختگی میاں محمد جاوید شیخانہ (وکیل) کے کنوئیں کے قریب جا کر ختم ہوجاتی ہے۔ اس سے آگے کچی سڑک ہے۔ اس طرح ڈیرہ ملک سرفراز احمد سے کوئی چار فرلانگ فاصلہ طے کرنے پر ہم ایک قبرستان بائیں جانب دیکھتے ہیں۔ یہ مسیحی قبرستان کا دوسرا نیا اور بڑا قبرستان ہے۔ اسے نیا قبرستان کہنے والے صحیح صورت حال سے واقف نہیں۔ حقیقت میں ڈیڑھ کنال کے رقبے میں یہاں ایک قدیمی قبرستان تھا۔ مگر اسے بہت کم استعمال میں لایا گیا۔ شائد اس لئے کہ یہ زیادہ دور تھا۔ بہرحال جب شہر والے قبرستان میں مزید قبروں کی گنجائش نہ رہی تو ملک مظفر علی مرحوم نے یہاں کی شام لاٹ زمین میں سے کوئی دو ایکٹر کے لگ بھگ رقبہ دیدیا۔ عاشق مسیح ولد مولا مسیح اور اس کا ماموں امام دین مسیح نے اس رقبے میں سے سرکنڈوں کے بوٹے اکھاڑ پھینکے۔ پھر عیسائیوں کی قبریں بننے لگیں۔ امام دین مسیح نے بتایا ایسے لگتا ہے کہ یہاں پہلے بھی کوئی قبرستان تھا۔ کیونکہ بعض اوقات قبر بناتے وقت ہڈیاں بھی نکل آتی ہیں۔ اور اینٹیں بھی۔ یہ اینٹیں تھانہ شرقپور میں بھی لیجائی گئیں تھیں۔ آثار قدیمہ کا علم رکھنے والوں نے قیاس ظاہر کیا کہ یہ اینٹیں پانچ سو سال پرانی تہذیب کو ظاہر کرتی ہیں۔ قبرستان کی موجودگی اس بات کی بھی غمازی کرتی ہے کہ اس قبرستان کے آس پاس کوئی آبادی بھی ہوگی۔
امام دین مسیح نے یہ بات بھی بتائی کہ 1955 سے بعد کی بات ہے کہ ایک دن بڑے زور کی بارش ہورہی تھی کہ اچانک بڑی آواز کے ساتھ پانی زمین میں نیچے جانے لگا اور ایک بڑھا سا گڑھا بن گیا۔ بارش تھمی تو اس گڑھے میں سے پانی نکالا گیا تو ایک مدفون لاش برآمد ہوئی۔ جو نہ جانے کب کی دفن تھی۔ مگر بالکل محفوظ حالت میں تھی۔ کفن تک نہ گلا تھا۔ یہ لاش ایک بوڑھے مرد کی تھی نہ جانے مسلمان کی تھی یا غیر مسلم کی۔ بہرحال اسے دوبارہ غسل دے کر کفن دیا گیا اور عیسائی رسومات کے مطابق دفن کیا گیا۔
قبرستان کے مجاوروں نے یہاں بڑھ کے دو درخت لگائے جو اب کافی پھیل گئے ہیں۔ اور سایہ فراہم کررہے ہیں۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سے سایہ دار پودے لگائے گئے ہیں۔ جن کی وجہ سے کافی چھاوں میسر آنے لگی ہے۔ ایک کھوئی اور نلکا بھی لگایا گیا ہے۔ پختہ جنازگاہ بھی بنی ہوئی ہے۔ قبرستان کی حدود کا تعین کرنے کے لئے چاردیواری بھی بنائی گئی جو مکمل ہن سکی۔ آہنی گیٹ بھی لگایا گیا۔ امام دین مسیح قبروں کی اچھی دیکھ بھال کررہا ہے۔ مگر بوڑھا ہوگیا ہے۔ اس نے بتایا کہ جب کوئی جنازہ آتا ہے تو کچھ سو روپیے مجھے بھی دیے جاتے ہیں۔ ظاہر ہے میں جنگل میں بیٹھا ہوا ہوں اتنے تھوڑے پیسے میری ضرورت کیا پوری کریں گے۔ زیادہ قبریں کچی ہیں۔ پختہ قبریں بہت تھوڑی ہیں۔ کوئی اڑھائی سو قبروں کے نشان محفوظ ہیں۔ چودھری رنگا مسیح جو اپنے وقت کا واقعی چودھری تھا اس قبرستان میں چینی کی ٹائیلوں والی قبر میں ابدی نیند سویا ہوا ہے۔
بذریعہ معلومات امام دین مسیح۔