ایک شہر تھا جس میں داخلے کے لیے ایک ہی راستہ تھا۔ اس شہر پر ایک حکمران حکومت کرتا تھا جس کے نیچے اس کا وزیر شہر کے تمام معمالات دیکھتا تھا۔ اس وزیر نے ایک دن شہر میں داخلے کے رستے پر چیک پوسٹ بنا کر ٹیکس لگا دیا اور کہا کہ جو بھی شخص شہر میں داخل ہوگا اس کو 10 روپے ٹیکس دینا ہوگا۔ لوگوں نے پہلے تو کچھ اوں آں کی مگر پھر ٹیکس دینا شروع کردیا۔ اس کے کچھ عرصہ بعد اس وزیر نے ٹیکس کو 50 روپے کردیا۔ تو شہر کے والی حکمران نے وزیر سے کہا کہ تم یہ ظلم کررہے ہو لوگ تو احتجاج کریں گے۔ تو وزیر نے کہا آپ ٹینشن نہ لیں مجھے پتہ ہے میری عوام کا کوئی نہیں بولے گا۔ اگر آپ نے اس سے بھی اوپر کوئی چیز دیکھنی ہے تو وہ بھی میں آپ کو دیکھا دیتا ہوں۔ اس نے شہر کے رستے پر دو پولیس والے بیٹھا دیے اور کہا کہ جو بھی گزرے اس سے ٹیکس کے پیسے بھی لو اور ساتھ دو جوتیاں بھی مارو۔ کچھ دنوں بعد لوگ اکھٹے ہوکر حکمران کے دروازے پر آگئے۔ تو حکمران نے وزیر کو کہا دیکھو لگتا ہے یہ تمہاری شکایت لگانے آئیں ہیں۔ وزیر کا جواب تھا۔ پہلے آپ ان کی بات سن لیں یہ کہتے کیا ہیں۔ میرا نہیں خیال یہ ٹیکس کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے آئے ہیں۔ حکمران نے لوگوں سے پوچھا کیا مسئلہ ہے تو ایک شخص کھڑا ہو کر بولا۔ عالی جاہ آپ نے 10 روپے ٹیکس لگایا ہم نے دیا پھر آپ نے 50 روپے لگایا ہم نے دیا اس کے بعد آپ نے دو پولیس والے بھی بیٹھا دیے جو ہمیں جوتیاں مارتے ہیں۔ ہماری عرض صرف اتنی ہے کہ پولیس والوں کی تعداد کو بڑھایا جائے کیوں کہ یہ صرف 2 پولیس والے وقت بہت ظائع کرتے ہیں۔
یہی حال خصوصا ہماری تحصیل شرقپور کا اور عموما ہمارے پورے ملک کا ہے۔ یہ عوام پچھلے کئی سالوں سے ٹیکس بھی دے رہے ہیں اور جوتیاں بھی کھارہے ہیں۔ کبھی گیس کی لوڈ شیڈنگ کی صورت میں، کبھی بجلی کی لوڈ شیڈنگ کی صورت میں، کبھی ہسپتال میں سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے، کبھی تھانے کچہری اور سرکاری محکوں میں رشوت دیے کر سیاسی ٹاوٹوں کے ہاتھوں اور سرکاری ملازموں کے ہاتھوں ذلیل ہو کر کام نکلواتے ہوئے اور کبھی علم کے حصول کے لیے مستقبل کی امید لگائے شرقپور کے لیے بننے والی پبلک لائبریری اور ریسکیو 1122 کی امید کرتے ہوئے اور کبھی پینے کے لیے صاف پانی کو ترستے ہوئے اور کبھی دن دیہاڑے روڈوں پر لٹتے ہوئے اور انصاف کے لیے رلتے ہوئے۔ اور کھبی جلسوں میں کیے گئے بڑے بڑے سیاسی وعدوں کے لالی پاپ میں الجھتے ہوئے۔ کبھی ان سیاسی لیڈروں کا جو ایک دوسرے کی شکل دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے تھے اور چار سال تک لوگوں کو تقسیم کرکے دھڑے بندی بنا کر لڑاتے رہے اور اب الیکشن جیتے کے لیے اور دوبارہ سے اس عوام کو زلیل کرنے کے لیے الیکشن کے قریب ایک بار پھر ہاتھ ملا کر شیروشکر ہوتے دیکھتے ہوئے اور آپس میں دوستی کی پینگیں بڑھاتے ہوئے۔ کہتے ہیں ہاتھ کی چاروں انگلیاں برابر نہیں ہوتی مگر یہی ہاتھ نے جب کھانا ہوتا ہے اور لقمہ لینا ہوتا ہے تو ساری انگلیاں برابر ہو جاتی ہیں۔ اور ہماری سوچ یہ ہے کہ ہم نے ووٹ پھر ان کو دینا ہے کیوں کے ہمارے ایم این اے اور ایم پی اے حضرات اور دیگر سیاسی لیڈر ہمیں جوتیاں بھی مارتے ہیں اور اس کے بعد ہم سے ہنس کر مل بھی لیتے ہیں اور ہماری مرگوں اور شادیوں پر بھی آجاتے ہیں اور تھانہ کچہری کے چکر میں ایک آدھ فون بھی گھما دیتے ہیں۔ ہمارے لیے بس اتنا ہی کافی ہے کہ ہمارا ایم این اے اور ایم پی اے ہم سے ہاتھ ملا لیتا ہے۔ اس لیے ہم نے ووٹ پھر ان کو دینا ہے یہ ہے ہماری سوچ اور ہماری سوچ کا محور۔