شرقپور کے نواحی گاوں اور بستیاں

شرقپور شریف کی شمالی جانب 4 کلومیٹر کے فاصلے پر تقریبا (9000)نفوس پر مشتمل بھرپور آبادی والی ایک بستی ہے۔ جس کی آباد کاری شرقپور شریف سے بہت پہلے کی ہے۔ مگر اس وقت اس کا یہ نام نہ تھا جو اب ہے۔ اب اسے غازی پور کہتے ہیں۔ مغلیہ بادشاہ اکبر کے دور میں غازی پور کو پرگنہ کا درجہ حاصل تھا۔ پرگنہ تحصیل کے انتظامی علاقہ کے برابر ہوتا تھا۔ حافظ محمد جمال بانی شرقپور کی خریدی گئی زمینوں کے کاغذات میں غازی پور کو پرگنہ ہی لکھا گیا ہے۔ اندلس کے حاکم امیر عبدالرحمن الداخل نے جب 171ھ میں وفات پائی تو اس کا بیٹا ہشام بن عبد الرحمن الداخل جو ولی عہد تھا تخت پر بیٹھا اس کے بھائی عبداللہ بن عبدالرحمن اور سلیمان بن عبدالرحمن جو اس سے عمر میں بڑے تھے۔ اور اندلس کی امارت پر اپنا حق سمجھتے تھے نے خود مختاری کا اعلان کر دیا۔ لہذا تینوں بھائی طلیطلہ کے میدان میں جنگ آزما ہوئے۔ ایک طرف ہشام بن عبدالرحمن کی سپاہ تھی اور دوسری طرف عبداللہ اور سلیمان کی۔ خوب خون ریزی ہوئی۔ عصر کے وقت سلیمان کی فوجیں دل چھوڑ گئیں۔ اور میدان سے بھاگ نکلیں۔ اس فوج کے کچھ دستے چھپتے چھپاتے اس جگہ پر آ کر خیمہ زن ہوئے جہاں اس وقت غازی پور آباد ہے۔ یہیں ایک بستی آباد کی۔ چونکہ یہ لوگ اپنے آپ کو غازی کہتے تھے لہذا انہوں نے اس بستی کو غازی پور کا نام دیا۔ پھر احمدشاہ ابدالی کے دور میں 1747ء تا 1773ء میں کوٹ کپورا سے چھ آدمی جو آپس میں تایا زاد اور چچا زاد تھے اپنے بیوی بچوں کے ہمراہ یہاں پہنچے۔ ان کے نام یہ تھے۔
محمود
مکیر
میدا
تاس
پنجو
سلطان
چونکہ ان کا مورث اعلی گھگ نامی ایک بہادر، ذی وقار اور صاحب عزت شخص تھا۔ اسکی مناسبت سے یہ لوگ گھگ جٹ کہلائے۔ ویسے بنیادی طور پر ڈھڈی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور راجہ کرن کی اولاد میں سے ہیں۔ یہ گاوں ہرے بھرے کھیتوں ، رنگین بہاروں والے باغوں اور جھومتے درختوں میں گھرا ہوا ہے۔ پوری آبادی جٹ برادری کی ملکیت میں ہے۔ راجوں کی اولاد ہیں راج کر رہے ہیں۔ کبھی تو اس کی ساری آبادی کچی تھی مگر اب کوٹھی نما پختہ مکانوں کا جدید رنگ لیے ہوئے ہے۔ لوگوں میں جدید اور قدیم دونوں رنگ نظر آتے ہیں۔ عزت اور غیرت کی خاطر مر مٹنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ معافی اور انتقام میں کبھی سمجھوتہ نہیں ہوتا۔ مخالف کی رکاوٹ پر احتجاج کرنے کی بجائے اسے پاوں کی ٹھوکر پر رکھنے کا جذبہ رکھتے ہیں۔ ہر شخص چودھراہٹ کا علم لیے ہوئے ہے۔ دوسرے چودھری کے جھنڈے کے سائے تلے اکٹھے ہونا ناگوار لگتا ہے۔ اور اس میدان میں جو آگے بڑھنے کی کوشش کرے وہ گولی کا نشانہ بن جاتا ہے۔ کہتے ہیں راجا گھگ، ریاض گھگ، اور شاہنا گھگ کی چودھراہٹیں انکی جان کی دشمن بن گئیں۔ آج کا نوجوان طبقہ تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو رہا ہے۔ سرکاری دفاتر میں کام بھی کر رہے ہیں۔ اور محنت کرنے کی اہلیت بھی رکھتے ہیں۔ یہ طبقہ اپنے آپ کو اپنی عزت اور زندگی کو امن کی راہ پر گامزن کر رہا ہے۔ غازی پور کا کل رقبہ 1885ء کے گزٹ کے مطابق 2168ایکڑ ہے۔ اورسارے کا سارا زیر کاشت ہے۔ ایک مرلہ زمین بھی خالی نظر نہیں آتی۔ یہ یہاں کے لوگوں کی کاشتکاری اور محنت کا واضح ثبوت ہے۔ اس وقت 1500 کی تعداد سے زیادہ مکان ہیں۔ دکانیں بہت تھوڑی ہیں۔ زیادہ لوگ شرقپور شریف سے سودا سلف خریدتے ہیں۔ پورا گاوں تین پتیوں (وراڈوں)میں منقسم ہے۔ جن کے نام یہ ہیں۔ پنوانی پتی
محمود کی پتی
میداتاس کی پتی
بلدیاتی انتخابات میں ہر پتی سے ایک ممبر منتخب ہوتا ہے۔ لوگ میلوں ٹھیلوں اور دیسی کھیلوں کے زیادہ شوقین ہیں۔ کبڈی اور کشتی سے خاصہ لگاو رکھتے ہیں۔ چند معززین دیہہ کے نام یہ ہیں۔ چوہدری فقیر علی ولد سوہنا
اللہ دتہ ولد صاحب دین
محمد عاشق ولد سلطان احمد
ڈاکٹر محمد انور ولد حاجی غلام محمد
ماسٹر صوفی محمد حنیف ولد علم دین
ماسٹر محمد رفیق ولد شاہ محمد
چودھری جمیل احمد ولد اکبر علی پٹواری
کرامت علی ولد جلال دین
حاجی فقیر محمد ملک ولد چراغ دین
محمد عاشق ولد بھاگ دین
حاجی جلال دین ولد حیات محمد اپنے دور کے بہت بڑے سخی تھے۔ غازی پور شرقپور شریف سے بذریعہ پختہ سڑک ملا ہوا ہے۔ تانگے عام چلتے ہیں۔ کچھ لوگون کی اپنی کاریں اس سڑک پر بھاگتی نظر آتی ہیں۔ لوگوں میں مذہبی رجحان بہت زیادہ پایا جاتا ہے۔ اکثر لوگ شریعت، نماز روزہ کے پابند ہیں۔ بوڑھے بابے ڈیرے کی زینت ہیں۔ اچھے مہمان نواز ہیں۔ حقہ پانی بڑے خلوص سے پوچھتے ہیں۔
بذریعہ معلومات: ماسٹر محمد رفیق ، صوفی محمد رفیق

شرقپور شریف کے شمالی جانب تقریبا ساڑھے تین کلومیٹر کے فاصلے پر صرف پانچ گھروں میں 37 افراد پر مشتمل ایک چھوٹی سی بستی ہے جسے ٹھٹھی سیالاں کہا جاتا ہے۔ کم و بیش 100 سال قبل سراج دین سیال کے والد نے 5مربعے زمیں کی واہی بیجی کی دیکھ بھال کے لیے اسے ایک ڈیرے کی شکل میں آباد کیا اور کچھ اپنے معاونین کو کچے کوٹھے بنانے کی اجازت دی۔ مگر یہ لوت اس ساری زمین کو آباد نہ کر سکے۔ صرف اتنی زمین پر کاشت کاری کرتے رہے جس کی پیداوار سے ان کا گزارہ ہو جاتا۔ پھر سراجدین اور اس کے بیٹے محمد انور نے بھی ادھر خاص توجہ نہ دی۔ بلکہ محمد انور نے تو زمینیں فروخت کرنا شروع کر دیں۔ یہ زمینیں سرعت کے ساتھ بکیں کہ محمد انور کے بیٹوں محمد اشرف اور محمد ریاض کے پاس 2،2 تا 3،3 ایکڑ زمیں رہ گئی۔ اور وہ، وہ کام کرنے لگے جسے عام زبان میں جرائم کہتے ہیں۔ ان پانچ گھروں کی بستی میں صرف 188 ووٹ ہیں۔ تاہم جن لوگوں نے اس بستی کی زمینیں خریدی ہیں انہوں نے انہیں خوب آباد کیا ہے۔ ہر طرف ہریالی دکھائی دیتی ہے ۔ امرودوں کے باغات جھوم رہے ہیں۔ مونجی اور گندم بڑی کثرت سے پیدا ہوتی ہے۔ سبزیاں بھی اگ رہی ہیں۔ تمباکو اور گنا بھی کاشت کیا جاتا ہے۔ یہ بستی بذریعہ پختہ سڑک شرقپور شریف سے ملی ہوئی ہے۔ جو پختہ سڑک ناظر لبانہ کے پتن کی طرف جاتی ہے۔ وہ غازی پور کے غربی قبرستان کے ساتھ سے بائیں طرف سے ایک اور پختہ سڑک کا آغاز کرتی ہے۔ یہ سڑک ٹھٹھی سیالاں کو جاتی ہے اور بالکل اس کی دیواروں کو چھوتی ہوئی آگے نکل جاتی ہے۔ سرشام اس بستی کا ماحول سنسان ہو جاتا ہے اور یہ بستی اندھیروں میں ڈوب جاتی ہے۔ سنا گیا ہے ایسے ماحول میں مشتبہ لوگ شب بسری کرتے ہیں۔ بالکل غریب لوگ یہاں رہتے ہیں۔ انکے بچے تعلیم سے بھی محروم ہیں۔
بذریہ معلومات: محمد اشرف ولد محمد انور
شیخ عبدالرزاق عرف ننھا کابلی ولد حاجی محمد عاشق کابلی

شرقپور شریف سے تقریبا ڈیڑھ میل (2کلومیٹر) کے فاصلے پر تقریبا 80 گھروں پر مشمتمل ایک چھوٹا سا گاوں بھوئے ڈھکو ہے جو ایک بل کھاتے ہوئے کچے پکے سولنگ لگے رستے کے ذریعے شرقپور شریف سے ملا ہوا ہے۔ گاوں کے ارد گرد ہرے بھرے سر سبز کھیت ہیں۔ امرودوں کے باغات بھی ہیں۔ اس گاوں کی آبادی کی بنیاد کوئی ایک سو سال قبل کے زمانہ میں پڑی۔ یہاں کھوکھر اور ڈھکو خاندان کے افراد زیادہ ہیں۔ گاوں کا کل رقبہ ایک ہزار ایکڑ ہے۔ 500 ایکڑ کے مالک ڈھکو ہیں اور 500 ایکڑ کے مالک کھوکھر ہیں۔ ان دونوں خاندانوں کے مورث اعلی گہرے دوست لگتے ہیں۔ جنہوں نے یہاں کا رقبہ حاصل کر کے دو برابر حصوں میں بانٹ لیا۔ گاوں کے لوگ نہایت سادہ طبیعت والے ہیں۔ خوب محنت کرتے ہیں۔ مگر ان کی محنت کا زیادہ حصہ آج کے ہوشیار اور چالاک لوگ لے جاتے ہیں۔ یہاں کے لوگ اپنی زمینوں میں گندم، مونجی، کماد اور سبزیاں اگاتے ہیں۔ کچھ لوگ شیر فروشی کا کام کرتے ہیں اور کچھ کے حصے میں شراب فروشی کا دھندہ آیا ہے۔ ان کے علاوہ یہاں کے باغوں کے امرود پورے پنجاب کی منڈیوں میں جایا کرتے ہیں۔ گائوں کی 600 افراد پر مشتمل آبادی کچے پکے مکانوں میں رہتی ہے۔ جگہ جگہ بڑی بڑی حویلیاں بنی ہوئی ہیں۔ جن میں ان کے مال مویشی باندھے جاتے ہیں۔ مزید یہ کہ یہ حویلیاں انہیں ڈیرے کے طور پر کام بھی دیتی ہیں۔ گاوں میں چونکہ دو خاندان ڈھکو اور کھوکھر آباد ہیں لہذا گاوں کی سیاست ان دونوں خاندانوں کے مفادات میں بٹ جاتی ہے۔ بچوں اور بچیوں کے دو الگ الگ پرائمری سکول ہیں مگر پڑھائی کا انتظام نہائت ناقص ہے۔ چونکہ بچوں کی بنیادی تعلیم کمزور رہ جاتی ہے۔ جس کا اثر ثانوی تعلیم پر بھی پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس گاوں کا کوئی شخص بھی آج تک اچھی تعلیم نہیں پا سکا ہے۔ گاوں کے مغربی جانب حضرت لال شاہ کا دربار ہے جہاں ساون کے پہلے اتوار میلہ لگتا ہے۔ کبڈی کا اکھاڑا جمتا ہے اور گائوں کے نوجوان لنگوٹے باندھ کر میدان میں اتر آتے ہیں۔
گاوں میں زیادہ پہچان مندرجہ ذیل ناموں کی ہے۔
لال دین نمبردار ولد نتھے خان
عمر دین ولد مند بخش یا محمد بخش
اصغر علی ولد لال دین
محمد اسلم نمبردار ولد لال دین
اللہ دتہ کھوکھر

بذریعہ معلومات
اصغر علی ولد شوکت علی
پسران لال دین نمبردار

سردار رام سنگھ اور سردار لال سنگھ دو سگے بھائی تھے۔ لال سنگھ نے اپنے نام پر قلعہ لال سنگھ آباد کیا جو پھریانوالا گاوں کے قریب ہے اور رام سنگھ نے دربار حضرت میاں محمد سعید سے جانب مغرب ایک آبادی قائم کی جسے قلعہ رام سنگھ کہا جاتا تھا۔ اس بستی کا رقبہ 500 ایکڑ تھا۔ یہ بستی ایک قلعہ میں تھی اس لیے اس کا نام قلعہ رام سنگھ رکھا گیا۔ رام سنگھ کا قلعہ دربار کے مغربی جانب تھا۔ جس کے آثار زمانہ حال تک قائم رہے قلعہ کی دیواریں منقش تھیں۔ یہاں تک کہ وہ کنواں جس کا پانی پختہ نالی کے ذریعے قلعہ میں جاتا تھا وہ بھی ساری منقش تھی۔ قلعہ میں حوض اور غسل خانے بنے ہوئے تھے۔ یہ غسل خانے مردانے اور زنانے الگ الگ تھے۔ قلعے کے اندر آموں کا ایک خوبصورت باغ تھا جس کے بعض درخت حال کے زمانے تک ایستادہ رہے ہیں۔ بلکہ مصنف تاریخ ہذا محمد انور قمر نے ان کے پھل اس وقت کھائے تھے جبکہ اس باغ کو شیخ محمد حسین مدان نے خرید رکھا تھا۔ بقول میاں فقیر محمد صاحب قلعہ رام سنگھ کی کچھ زمینیں میاں محمد اسماعیل کابلی مرحوم نے خرید لیں اور انہوں نے یاں اینٹوں کا بھٹہ لگایا تو ان زمینوں کو ہموار کیا گیا اور اینٹیں پاتھنے والے پتھیروں نے قلعہ کی کچی ڈیوڑی کو مسمار کیا اور اس طرح کی سطح ہموار کرنے لگے تو زمین میں تانبے کی مدفون گاگریں برآمد ہوئیں۔ جن میں سونے کی مہریں تھیں۔ چونکہ رات کا وقت تھا یہ ساری دولت وہ پتھیرے باندھ کر لے گئے۔ میاں محمد اسماعیل کابلی کو جب اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے ان پتھیروں کو تلاش کیا مگر وہ ہاتھ نہیں آئے۔ آج اس قلعہ رام سنگھ کی آبادی اور بستی کا کوئی وجود نہیں مگر اس کا رقبہ اس نام سے مال کے کاغذوں میں ابھی تک موجود ہے۔ یہ سردار رام سنگھ خاصا متمول اور چودھری قسم کا آدمی تھا۔ اس قلعہ کی فوج بھی تھی اور گھوڑیاں بھی۔ جب یہ فوج ظفر موج گھوڑیوں پر سوار ہو کر لاھور کی جانب جاتی تو رستے میں کتنی ہی فصلوں کو روندھ کر گزر جاتی تھی۔ ان فصلوں کے مالک بیچارے کوئی احتجاج بھی نہ کر سکتے تھے۔ اف۔۔ اس وقت لوگ کس قدر بے بس ہوا کرتے تھے۔
بذریعہ معلومات
میاں فقیر محمد ولد میاں فرزند علی - دربار میاں محمد سعید

بابا کرم داد لالچی 28 ایکڑ زمین کا مالک تھا۔ اس کے کھوہ کو لالچیاں دا کھوہ کہتے تھے۔ اس کی بہت بڑی حویلی شرقپور شریف میں تھی۔ مگر جب وہ حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر مقروض ہو گیا تو اس نے یہ حویلی فروخت کر دی اور کھوہ پر رہائشی مکان بنا لیے اور کچھ اور لوگوں نے بھی 5 روپے فی مرلہ کے حساب سے یہاں جگہیں خرید لیں اور یہاں ایک بستی بن گئی۔ جس کا فاصلہ شرقپور شریف سے صرف 2فرلانگ ہے اور یہ گھاٹ والے سٹاپ کے بڑی قریب ہے۔ اس بستی کو ٹھٹھہ لالچیاں کہا گیا۔ یہ ٹھٹھہ 1940ء میں آباد ہوا۔ اس سے قبل یہاں دو تین حویلیاں بنی ہوئی تھیں اور اسے کوٹ روشن دین کہتے تھے۔ تقریبا 60 گھرانے یہاں آباد ہیں اور پونے چار سو کے قریب نفوس رہتے ہیں۔ اس ٹھٹھہ کے قریب کچھ رقبہ ملک مظفر علی مرحوم کا بھی ہے انہوں نے اس کھلی فضا میں اپنی شاندار کوٹھی 1968ء کے لگ بھگ بنائی۔ جس کی مناسبت سے لوگ اسے کوٹ مظفر علی یا کوٹ مظفر بھی کہنے لگے۔ مگر زیادہ مشہور نام ٹھٹھہ لالچیاں ہی رہا۔ اعلی حضرت میاں شیر محمد رحمتہ اللہ علیہ کے خلیفہ خاص سید محمد اسماعیل شاہ صاحب زندگی بھر یہاں آ کر ٹھہرا کرتے تھے۔ بابا کرم داد کے پانی کے کھویں میں دعا مانگ کر پھونک ماری جس سے اس پانی میں یہ تاثیر پیدا ہو گئی کہ جو بیمار آدمی اسے پی لیتا صحت یاب ہو جاتا۔ اس ٹھٹھہ میں ایک مسجد، بچیوں کا پرائمری سکول اور ایک ملک انڈسٹریز ہے۔ اس بستی کے لوگ دینی رجحان رکھتے ہیں۔ بھائی بہنوں کی طرح رہتے ہیں۔ مندرجہ ذیل لوگ زیادہ شہرت کے حامل ہیں۔
حاجی محمد اکرم
محمد انور نمبردار
ملک فقیر محمد
شاہ محمد غلزہ ۔ گلجہ
حاجی قائم دین
حاجی اللہ دتہ
ماسٹر محمد لطیف
حاجی محمد اشرف
بذریعہ معلومات حاجی محمد اکرم، محمد انور نمبردار

بھینی اصل میں بہنی تھا۔جو بہنا(بیٹھنا ) سے بنا ہے۔بہنی پڑاو کے معنی میں استعمال ہوتی ہے۔ یعنی ٹھہرنے کی جگہ، خانہ بدوش لوگ جب کسی جگہ پر قیام کرتے تووہ اپنے قافلہ کے کسی بزرگ کے نام کے ساتھ بہنی کا لفظ استعمال کر کے اپنا پتہ بتایا کرتے تھے۔جیسے باگے(باغے)دی بہنی (باغے کی بہنی) باغے سے مراد باغ علی ہے۔ایسے ہی رحمے(رحمت سے) دی بہنی (رحمے کی بہنی) ۔ یہ پڑاو یا بہنیاں عارضی طور پربنتی تھیں۔ لیکن جب کسی جگہ پر کوئی مستقل آبادی ہوتی اور اس آبادی کے بعض لوگ اپنے ڈھور ڈنگر لے کر ایسی جگہ پر جا بیٹھتے جہاں چراگاہ بھی ہوتی اور پانی بھی تو وہ لوگ بھی کہا کرتے کہ ہماری بہنی فلاں جگہ پر ہے۔عموماَ ایسی بہنیاں دریا کے کنار ے ہوا کرتی تھیں۔اگر ان لوگوں نے اپنی اس عارضی بستی (بہنی)کا کوئی مستقل نام نہیں رکھا تو وہ بستی بھی بہنی کے نام سے شہرت پا جاتی۔ ہم جس بستی کا ذکر کر رہے ہیں وہ بھی بہنی سے بنی ہے۔ یعنی 'بھینی' یہ شرقپور شریف کے شمال مشرق کی جانب واقع ہے۔اس بھینی کے قریب ایک بہت بڑا قصبہ نما گاوں ڈھانہ تھا جو اب بھی ہے۔مگر اس کی آبادی کا پھیلاو نہایت تھوڑا سا رہ گیا ہے۔ کیونکہ دریائے راوی نے اس کے ساتھ دست برد کا کھیل جاری رکھا ہے۔وہاں سے کچھ ڈوگر،ارائیں اور سکھ اپنے مال مویشی لے کر پندرھویں صدی کے نصف یا آخر میں یہاں آکر آباد ہوئے۔ارائیں اسے بہنی ارائیاں کہتے تھے۔سکھ اسے بہنی سکھانوالی کہتےاور ڈوگر اسے بہنی ڈوگراں کہنے لگے۔اس طرح ایک گاوں کے تین نام بولے جاتے۔باہر سے آنے والے لوگوں کو شبہ رہتا کہ انہوں نے کس بھینی میں جانا ہے۔لہٰذا اس وقت کے لوگوں نے خود ہی اسے صرف بھینی کا نام دیدیا۔
پندرھویں صدی کے نصف یا آخر کے اعتبار سے کہا جا سکتا ہے کہ یہ بھینی شرقپور شریف سے کم و بیش ایک سو سال قبل آباد ہوئی۔ جب شرق پور شریف کی بنیاد پڑی تو بھینی ایک قصبہ نما گاوں بن چکی تھی۔اس کے درمیان میں ایک فرلانگ لمبا بازار تھا جس کے دونوں اطراف دروازے تھے۔جب دروازے بند کر دئیے جاتے تو پورا گاوں ایک قلعہ کی طرح محفوظ ہو جاتا تھا۔اس بازار میں استعمال کی ہر ایک چیز دستیاب ہو جایا کرتی تھی۔کپڑے ،زرگری اور کریانے کا خوب کاروبار تھا۔ تھوک و پرچون کی دکانوں پر بھیڑ رہتی تھی۔ بھینی کا گاوں دریائے راوی کے بائیں کنارے سے کوئی 5۔1 میل دور آباد تھا۔ دریا کا پتن شرقپور شریف کی ٹاہلی والی مسجد کی جگہ کے بڑا قریب تھا اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کشتی کا رسہ اس ٹاہلی سے باندھا جاتا تھا جس کی نسبت سے اسے ٹاہلی والی مسجد کہتے ہیں۔شرقپور کی بنیاد پڑنے کی بعد اس دریا نے اپنا بائیاں کنارہ نگلنا شروع کر دیا۔ یہاں تک کہ بھینی کی رونقیں سب غرق آب ہو گئیں۔مگر اس کی غرقابی کا عمل جاری رہا۔اب اس کے دائیں کنارے پر بھینی کے باہمت لوگوں نے نئے سرے سے گھر بنانے اور بسانے شروع کر دئیے ہیں۔دریا بھینی کی زمینوں پر زرخیز مٹیاں بچھا کر بہت آگے نکل گیا۔ اتنا آگے کہ دریا کی بپھری لہروں کا شور بھی سنائی نہ دیتا تھا۔اس کے بعد چوہنگ،شاہ پور کانجرہ،بولے گڑھی کی زمین اس کی خوراک بننے لگی۔
اس روایت کی روشنی میں ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ موجودہ بھینی کی آبادی شرقپور کی آبادی کے بعد کی ہے ۔درمیان سے دریا کی رکاوٹ ہٹ گئی۔ دونوں بستیاں بڑھنے پھولنے لگیں۔ دونوں کے مفاد ایک دوسری سے وابستہ ہو گئے۔پھر تین سو سال تک ان آبادیوں نے خوب ترقی کی۔ مگر دریا کو پھرغصہ آگیا۔اس نے تخریبی عمل کی کسیاں پھر نکال لیں اور بھینی کی زرخیز زمینیں ڈھانی شروع کر دیں۔ اس کا یہ عمل 1973ء تک برابر جاری رہا۔یہاں تک کہ بھینی پانچ حصوں میں منقسم ہو گئی۔ 1۔پرانی بھینی۔دریائے راوی پر حفاظتی بند باندھ کر اب اسے محفوظ کر لیا گیا ہے۔
2۔غریب آباد، جب 1955 میں سیلاب آیا تو وہ لوگ جو پاکستان بننے پر یہاں آباد ہوئے تھے۔ان کے گھر غرق ہو گئے تو انہوں نے ہندووں کے مرگھٹ والی جگہ(ہندو اوقاف کی زمین) پر مکانات بنا کر ایک نئی بستی آباد کر لی۔
3۔جھگی سائیں عمر دین۔1973ء کے سیلاب (حفاظتی بند ٹوٹنے پر) لوگوں نےمکانات بنا لیے۔
4۔ٹھٹھہ بولیاں۔یہ آبادی 1955ء سے پہلے ہی سیلاب کی دست برد سے بچنے کے لیے بن چکی تھی۔
5۔نئی بھینی۔بستی 1955 میں شرقپور شریف کی شمالی جانب انٹر کالج کے قریب ہندو اوقاف کی جگہ پر آباد ہوئی۔
ان آبادیوں سے بھینی کا اتحاد ٹوٹ گیا۔محبتیں بٹ گئیں۔لوگ اپنی زمینوں سے دور ہو گئے۔بعضوں کے کاروبار تلپٹ ہو گئے۔ دریائے راوی کی یہ زیادتیاں نئی نہ تھیں۔ وہ مدت سے اس شغل تخریب میں مصروف رہا ہے اور بستیوں کی بستیاں نیست و نابود کرتا آیا ہے۔مگر بھینی والوں کی بد دعا بھی اسے کھا گئی ہے۔ ہندوستان نے اس سے سارا پانی چھین لیا ہے۔اب دریا خشک ہے۔بھینی کے ایک ظریف الطبع آدمی(اقبال ورک)نے کہا کہ:۔
"جے دریائے راوی نے ساڈا ککھ نہیں چھڈیا تے ایہندا اپنا ککھ وی نہیں رہیا۔ایہندی رگاں وچوں وی اللہ نے پانی کھچ لیا اے۔"
بھینی میں ڈوگر، ارائیں، کھوکھر، گجر، ماچھی، ترکھان اور تیلی لوگ زرعی رقبے کے مالک ہیں جن کی محنت سے باغات کی بہاریں ہیں۔ سبزیات کے ہرے بھرے کھیت دکھائی دیتے ہیں۔ مونجی اور گندم خوب پیدا ہو رہی ہے۔ بھینی میں بعض بزرگان دین کے مزارات بھی ہیں۔ جن کے سالانہ عرس اور میلے ہوتے ہیں۔کبڈی اور کشتیوں کے اکھاڑے لگتے ہیں اور دیہات کی ثقافت کا رنگ خوب نکھر کے سامنے آتا ہے۔
1۔بابا غلام مصطفٰے کا میلہ 10 ہاڑ کو ہوتا ہے۔
2۔ میلہ میاں والی کھوئی 27 ہاڑ کو لگتا ہے۔
3۔بابا بودیاں والا یہ میلا 18 ہاڑ کو ہوتا ہے۔
4۔سوڑھے والا دربار یہاں 28 ہاڑ کو میلا ہوتا ہے۔
سوڑھا اس کچے کنویں کو کہتے ہیں جہاں بارش کا پانی جمع ہوتا ہے اور لوگ اسے استعمال کرتے ہیں۔
5۔میلہ جھگی بابا عمر دین یہ میلہ ساون کی دوسری جمعرات کو ہوتا تھا۔مگر اب 14۔15۔اگست کو ہونے لگا ہے۔
بھینی کے گاوں میں مندرجہ ذیل اشخاص زیادہ شہرت کے حامل ہیں اور ان کے ناموں کی خوب پہچان ہے۔
ملک اصغر علی ڈوگر ولد خیر دین
ماسٹر محمد عاشق ولد برکت علی
ملک بہاول عرف بہالا
بابا امام دین
برکت علی ولد امام دین
نعمت علی ولد محمد ابراہیم
فقیر محمد ڈوگر
مستری رحمت علی ولد احمد دین
مستری نور محمد ٹھیکیدار ولد بدر دین
مستری محمد اسماعیل ولد نور محمد
بابا محمد حیات کھوکھر
محمد حنیف ولد شیر محمد
یہاں ایک بلند قامت شخص بھی ہے جو صوبہ بھر(پنجاب) میں طویل القامت ہے۔ اس کا نام ریاض احمد ولد فرزند علی ولد محمد بوٹا چوکیدار ہے۔اسے لوگ دیکھنے کے لیے دور دور سے آتے ہیں۔
حاجی محمد رمضان ولد عبدااللہ اپنے وقت کے بڑے پھرتیلے کبڈی کھیلنے والے تھے۔
رحمت علی ولد محمد اسماعیل اونٹ پر سے پھلانگ جایا کرتے تھے۔
حکیم محمد شریف،حکیم محمد عاشق ولد محمد شریف مانے ہوئے حکما میں سے تھے۔
احمد دین جراحی میں انتہائی شہرت کا حامل تھا۔اور گلاب دین گجر طاقت میں سب سے آگے تھا۔
بھینی گاوں کا رقبہ1000 ایکڑ کے لگ بھگ ہے۔٪96 رقبہ زیر کاشت ہے۔بھینی کے قریب ہی سرکاری جنگل ہے جس کی وجہ سے یہاں کے لوگوں کو خاصی مزدوری مل جاتی ہے۔نئی نسل میں تعلیم کی طرف رجحان بڑھ رہا ہے۔لوگ اپنے قول کے پکے ہیں۔اگر کوئی جھگڑا ہوتا ہے تو قول توڑنے پر ہی ہوتا ہے۔اپنے فیصلے خود کر لیتے ہیں۔
بذریعہ معلومات
ماسٹر محمد صدیق، ماسٹر محمد اشفاق
ملک محمد ارشد ڈوگر، ماسٹر شاہ احمد

کوٹ محمود شرقپور شریف سے تین ساڑھے تین کلو میٹر کے فاصلے پر شمال مغرب میں واقع ہے۔یہ دو دفعہ آباد ہوا ہے۔اس کے بانی غازی پور کے چودھری محمود گھگ تھے۔ انہیں کے نام کی مناسبت سے اس کا نام کوٹ محمود رکھا گیا۔ انہوں نے 1700ایکڑ کے رقبہ پر اپنی ملکیت کا تصرف کیا اور جہاں اس وقت دربار بابا موسے شاہ ہے یہاں انہوں نے اس کی آبادی کا آغاز کیا ایک کچے کوٹ(فصیل) کے اندر اپنی حویلیاں اور رہائشی مکان بنائے جو کہ بالکل کچے تھے۔وہ خود ان کے کارندے اور مال مویشی اس کوٹ پناہ کے اندر رہتے تھے۔ ان کی زندگی اور مال و جان اس کوٹ پناہ میں بڑی محفوظ تھی۔اسی وجہ سے لوگ اسے قلعہ بھی کہتے تھے۔ بعض لوگوں کی زبان پر یہ بات ہے کہ انہوں نے اپنے استاد کی بیٹی سے پسند کی شادی کر لی تھی۔ استاد کو اس کا بہت زیادہ دکھ تھا۔وہ تو اپنے اس نا خلف شاگرد کو مار دینا چاہتا تھا مگر ایک طویل مدت تک وہ ایسا نہ کر سکا۔ لوگ تو اس شادی اور محمود کے معاشقہ کو بھول ہی گئے تھے۔ یہاں تک کہ محمود گھگ بڑھاپے میں داخل ہو گیا۔ اس کی اولاد بھی نہ تھی۔وہ عیدالفطر کی نماز پڑھنے کے لیے غازی پور میں آیا۔جونہی استاد نے محمود کو دیکھا اس کی آنکھوں میں خون اتر آیا۔اس نے جلدی سے ایک خنجر لیا اور محمود کے سینے سے پار کر دیا۔وہ بری طرح زخمی ہو کر صاحبِ فِراش ہو گیا۔آخر زخموں کی تاب نہ لا کر مر گیا۔ چونکہ محمود کا کوئی قانونی اور جائز وارث نہ تھا۔ لہذا یہ زمین بحق سرکار ضبط کر لی گئی۔ اور جب راجہ کھڑک سنگھ(رنجیت سنگھ کا بیٹا) کا دور آیا تو وہ اپنی حکومت کے دو سال بھی پورے نہ کر سکا(دور حکومت جون 1839ء تا نومبر1840ء) کوٹ محمود کی زمین 1700ایکڑ کو اس نے ملک محمد وارث ،ملک نامدار اور ملک محکم دین کے والد بزرگوار ملک سلطان کے ہاتھوں3روپیہ فی ایکڑ کے حساب سے فروخت کر دی۔ زمین کے ان نئے مالکوں نے موجودہ کوٹ محمود کو اصل کوٹ محمود سے قریباَ ایک فرلانگ جانب مشرق آباد کیا۔یہ گاوں بھی ابتداَ کچی فصیل کے اندرآباد کیا گیا۔ تاریخی اعتبار سے اس کی آبادی1857ء کی جنگِ آزادی سے چند سال قبل شروع ہوئی۔کہا جاتا ہے کہ شرقپور شریف کی نواحی بستیوں میں سب سے آخر میں آباد ہونے والی یہی بستی ہے۔
ملک محمد وارث، ملک نامدار اور ملک محکم دین تینوں بھائی تھے۔ اور ملک سلطان احمد کےبیٹے تھے۔ جب انہوں نے زمین خریدی تو بیع نامہ ملک محمد وارث ولد ملک محمد سلطان کے نام لکھا گیا۔ ملک محمد وارث مرحوم ملک حسن علی مرحوم جامعی کا پڑدادا تھا۔ جب ان بزرگوں (ملک محمد وارث، ملک نامدار، ملک محکم دین) کی اولادیں اس زمین کی وارث بنیں تو نزاع پیدا ہو گئی۔ ملک محمد وارث کی اولادیں کہتیں کہ یہ زمین ہمارے بزرگ کے نام ہے لہٰذا ہم اس کے مالک ہیں اور دوسرے بزرگوں کی اولادیں کہتیں کہ چونکہ تینوں بھائیوں نے مشترکہ زمین خریدی ہے لہٰذا وہ بھی اس زمین کے وارث ہیں۔ آخر فیصلہ ہوا کہ جن زمینوں پر ملک نامدار کی اولادیں قابض ہیں وہ انہیں دی جائیں اور جن زمینوں پر ملک محکم دین کی اولادیں کاشت کاری کر رہی ہیں ان کے مالک وہ بن جائیں۔ اور بقیہ جتنا رقبہ ہے وہ ملک محمد وارث کی اولاد کے حصے میں دے دیا جائے۔ اس فیصلے پر سب لوگ متفق ہو گئے۔ یہ زمین تو ان کے حصہ میں آگئی مگر وہ سب کاشتکاری کرنے والے نہ تھے۔ لہٰذا انہوں نےزمین مزارعین کےسپرد کر دی۔
پاکستان بننے کے بعد ایوب خان کے دور حکومت میں زرعی اصلاحات میں پرانے مزارعین جو 25 سال سے ایک زمین پر کاشتکاری کر رہتے تھے۔ اصل مالکان کی موروثیت توڑ کر قابضین مزارعین کو مالک بنا دیا گیا۔ اس طرح کوٹ محمود کی زمین بہت سے خاندانوں میں بٹ گئی۔ آج یہ گاوں ایک قصبہ بن چکا ہے، 9000 افراد کی آبادی پر مشتمل ہے اور مکانوں کی تعداد 800 سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔ آبادی پختہ مکانوں پر مشتمل ہے۔ اکثر مکان دیہاتی طرز تعمیر کے ہیں۔سڑکوں کا نشیب اور بل کھاتی تنگ گلیاں گنجان آبادی کا نقشہ پیش کر رہی ہیں۔ کوٹ محمود، یونین کونسل کا صدر مقام ہونے کے باعث مختلف اوقات میں چئیرمین بھی اسی گاوں کے رہے ہیں۔مگر بہبود و ترقی میں زیادہ دلچسپی نہیں لی۔اس پستی کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ یہاں چودھراہٹیں زیادہ ہیں۔ایک چودھراہٹ دوسری چودھراہٹ کے پاوں کھینچتی رہتی ہے۔ لڑکیوں کا ہائی سکول یہاں کی بچیوں کو تعلیم سے روشناس کروا رہا ہے۔ لڑکوں کے ہائی سکول کے لیے حکومت زمین مانگتی ہے۔مگر گاوں والے ابھی تک ایسے سکول کی عمارت کے لیے زمین نہیں دے سکے۔جس کی بنا پر لڑکے صرف پرائمری تک پڑھ سکتے ہیں۔پھر وہ شرقپور شریف کے ہائی سکول میں آجاتے ہیں۔ لوگ محنتی ہیں،زمینوں کی الٹ پلٹ کرنے کے فن میں خوب ماہر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ 1700ایکڑ زمین ساری کی ساری زیر کاشت ہے۔ جہاں مونجی،گندم،کماد،باغات اور سبزیاں اپنے اپنے موسموں میں خوب بہار دکھاتی ہیں۔ گاوں کے اردگرد بڑی کشادہ حویلیاں ہیں جن میں مال مویشی اور بھینسیں بندھی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ نئی نسل میں تعلیم کا خوب رجحان ہے اور بعض نوجوان اچھے اچھے عہدوں پر محض تعلیم کے باعث فائز ہیں۔ بعض اہل فن بیرون ملک کام کر رہے ہیں۔ اور ملک کےزر مبادلہ میں اضافہ کر رہے ہیں۔ لوگ ملنسار ،مہمان نواز اور عزت دار ہیں۔ دوسروں کی عزت کی حفاظت بھی کرتے ہیں اور اتفاق سے رہتے ہیں۔ چھوٹے موٹے جھگڑوں کو خود ہی نپٹا لیتے ہیں۔ ملک محمد صدیق اور ملک حاجی دین محمد کے ڈیرے اس کام میں اپنا اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں نومبر 2015 کے بلدیاتی الیکشن میں ملک اختر نواز ایک بڑے مارجن سے چیئرمین کی حثیت سے کامیابی حاصل کی ہی۔ وہ ابھی نوجوان ہیں اور ان سے یہ امید کی جارہی ہے کہ وہ اس گاوں کی بہتری کے لیے بہت سے کام کریں گے۔
گاوں میں اور گاوں کے قریب ان بزرگوں کے مزارات پر میلے اور عرس ہوتے ہیں۔
۔حضرت سخی شاہ بخاریؒ     ساون کی پہلی جمعرات
۔حضرت بابا موسے شاہؒ     ہاڑ کی 20 تاریخ
۔حضرت بابا بہادر شاہؒ     ہاڑ کی 24 تاریخ
۔حضرت سید جیون شاہؒ     جیٹھ کی 23 تاریخ
۔حضرت سید پیر نور نبی شاہؒ
۔ہاشم شاہؒ     اسوج کی پہلی جمعرات

ان میلوں پر علاقہ کی ثقافت کاخوب مظاہرہ ہوتا ہے۔دکانیں لگتی ہیں۔تھیٹر آتے ہیں۔کبڈی اور کشتیوں کے اکھاڑے جمتے ہیں۔

گاوں میں یہ لوگ زیادہ شہرت کے حامل ہیں۔
۔ حاجی دین محمد ولد ملک غلام محمد
۔ ملک محمد صدیق ولد احمد دین
۔ ملک مہر دین ولد نواب دین
۔ حکیم حاجی غلام نبی ولد محمد دین
۔ حاجی محمد ابراہیم
۔ حاجی امام علی ولد حاجی احمد دین
۔ ڈاکٹر ارشد نبی ولد حکیم غلام نبی
۔ڈاکٹر نذیر احمد ولد مہر دین
۔ملک منیر احمد ولد ملک مہر دین
۔ذوالفقار علی ولد محمد صدیق
۔ملک صابر حسین مینجر N.B.P.
۔ملک فرمائش علی ایڈووکیٹ
۔ڈاکٹر محمد رفیق
علاوہ ازیں ملک محمد واجد حسین اور فقیر محمد کبڈی کے میدان میں خوب نام کما چکے ہیں۔
بذریعہ روایت و معلومات
حاجی ملک دین محمد۔ملک محمد صدیق

شرقپور شریف کی جانب مغرب 3 کلو میٹر کے فاصلے پر تقریباَ 125 گھروں پر مشتمل ایک چھوٹی سی بستی ہے جسے سکھانوالا کہا جاتا ہے۔ یہاں کوئی سکھ گھرانہ نہ اب آباد ہے اور نہ کبھی تھا۔ اسے سکھانوالا کہنے کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ سکھوں کی لوٹ کھسوٹ سے عوام کو تحفظ دینے کے لیے ایک بہت بڑا کچا قلعہ یہاں بنایا گیا تھا۔ جہاں سرکاری پولیس رہتی تھی۔ اس قعلعہ کے چاروں کونوں پر برج بنے ہوئے تھے۔ جہاں پولیس والے چار پائیاں بچھا کر رات بھر پہرہ دیا کرتے تھے ۔ کوئی دس فٹ موٹی دیوار کی فصیل بنی ہوئی تھی۔ جس پر بیل گاڑی چل سکتی تھی۔ عام روایت کے مطابق یہ قلعہ رنجیت سنگھ کے دور میں بنایا گیا۔ مگر یہ روایت درست نہیں ہے۔ سکھ شاہی کا زمانہ گروگوبند سنگھ کا دور ہے۔ اس زمانہ میں سکھ مسلمانوں کے دیہاتوں پر حملے کرتے تھے۔ ان کی دست برو سے رعایا کو پر امن رکھنے کے لیے اورنگزیب عالمگیر نے 1703ء سے قبل یہ قلعہ بطور پولیس چوکی بنوایا تھا۔ اس وقت اس کا نام قلعہ سکھانوالا نہ تھا۔ بس ایک پولیس چوکی کا نام تھا۔راجہ رنجیت نے اپنے دور حکومت میں یہاں سکھ پولیس امن عامہ کے لئے رکھی۔ لوگ اسے سکھوں کی پولیس چوکی کہتے تھے۔اب اسے لوگ قلعہ سکھانوالا کہتے ہیں۔ 1849ء میں انگریزوں نے سکھ ریاست کو ختم کر دیا تو یہ چوکی بے آباد ہو گئی۔ اور شرق پور شریف سے حافظ محمد جمال کے خاندان کے وہ افراد جو جوڑا خاندان کے نام سے مشہور ہو چکے تھے یہاں آکر پہلے آباد کار کی حیثیت سے آباد ہوئے۔ اس قلعہ میں جہاں کبھی بیرکیں تھیں وہاں گھر کا سامان رکھا اور اپنے مال مویشی باندھے۔لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ قلعہ سکھانوالا کی آبادی 1849ء کے بعد شروع ہوئی۔ اس وقت کوئی 125 گھر جدید اور قدیم طرز کے بنے ہوئے ہیں۔مکان پختہ ہیں۔ان گھروں میں 600 کے لگ بھگ افراد رہتے ہیں۔کھلی حویلیاں بھی ہیں۔ گاوں کی کل زرعی زمین 250 ایکڑ تھی۔جن میں سے 25 ایکڑ کے قریب مکانوں،نہروں اور سڑکوں میں آگئی ہے۔ اب 225 ایکڑ رقبہ کی زراعت پر یہاں کے لوگوں کا انحصار ہے۔ حویلی فضل الٰہی جو شرقپور کی مشہور بستی تھی کی آبادی اس بستی کی آبادی میں مدغم ہو گئی ہے۔ چاہ ککڑانوالہ بھی اس دیہات کا ایک حصہ بن گیا ہے۔ قلعہ سکھانوالہ میں زیادہ لوگ زراعت پیشہ ہیں۔ بعض مزدور پیشہ لوگ شرقپور شریف میں آکر کام کرتے ہیں۔کچھ ہنر مند لوگ بیرون مل جا کر کام کر رہے ہیں اور ملک کے لیے زرمبادلہ کماتے ہیں۔ کاشتکاری جدید طریقوں سے کی جا رہی ہے۔ہر طرف ہریالی ہی ہریالی ہے۔امرود،آم اور الیچی کے باغات اپنی بہار دکھا رہے ہیں۔شیشم،سفیدہ اور پاپولر کے درختوں نے ماحول کو خوشگوار بنا رکھا ہے۔ گاوں کے بیچوں بیچ لاھور جڑانوالہ روڈ گزر رہی ہے۔ چاول بنانے کا شیلر،کولڈ سٹوریج اور لکڑی چیرنے والے آرے لوگوں کے بہتر روزگار کا باعث بنے ہوئے ہیں۔سکارپ کالونی کی دیواریں گاوں کی دیواروں سے ملنے والی ہیں۔ کہنے کو تو یہ بستی ایک دیہاتی بستی ہے مگر بستی کے لوگوں کی بودوباش شہریوں کی سی ہے۔کاریں،سائیکلیں اور موٹر سائیکلیں لوگوں کا ذریعہ آمدورفت ہیں۔ لوگ اچھے اخلاق کے مالک ہیں۔ مہمان نواز بھی ہیں۔عزت والے لوگ ہیں۔دوسروں کی بھی عزت کرتے ہیں اپنے جھگڑے خود ہی نپٹاتے ہیں۔تحصیل تھانے میں جانا معیوب سمجھتے ہیں۔کچھ لوگ پولیس میں ملازم ہیں۔ملک بشیر احمد صاحب شعبہ وکالت سے وابستہ ہیں۔ملک کے شہرت یافتہ کبڈی کے کھلاڑی ملک مشتاق احمد کے استاد ملک سردار احمد صاحب یہیں رہتے ہیں۔نئی نسل تعلیم کی طرف زیادہ مائل ہے۔لڑکے اور لڑکیاں شوق کے ساتھ حصول علم میں منہمک ہیں۔ اس گاوں کے ساتھ اب تحصیل ہسپتال بھی بن گیا ہے جس سے گاوں کے لوگوں کے بہت زیادہ فائدہ ہو گیا ہے۔

مندرجہ ذیل حضرات زیادہ عزت اور شہرت کے مالک ہیں۔
ماسٹر سردار محمد ولد غلام احمد
نور علی ولد دین محمد جوڑا
محمد صدیق ولد فضل الٰہی
نور محمد نمبردار ولد محمد صدیق
برکت علی ولد شیر محمد
محمد سرور ولد محمد حسین
ملک عبدالحق ولد کرم دین
بذریعہ معلومات
ماسٹر سردار محمد صاحب ولد غلام محمد

سکھانوالہ بنگلہ سے تقریباَ 2 فرلانگ کے فاصلہ پر جانب مشرق ایک بھرپور آبادی والا گاوں ہے۔جس کے متعلق مشہور ہے کہ یہاں زیادہ تر آرائیں برادری کے لوگ آباد ہیں جو نہائیت شریف الطبع ہیں۔بدمعاش، چوراچکے،جوئے باز اور منشیات کا عادی کوئی بھی شخص نہیں رہتا۔اس گاوں کا نام ایحیٰی پور ہے۔یہ گاوں شرقپور شریف سے کوئی 3 میل سے زیادہ فاصلے پر نہ ہو گا۔
کہا جاتا ہے کہ اس گاوں کی بنیاد شرقپور شریف کی بنیاد پڑنے کے جلد ہی بعد پڑگئی تھی۔اسے چھچھر گوت کے لوگوں نے آباد کیا تھا۔ موجودہ آبادی سے 4 ایکڑ کے فاصلے پر سادات کاایک ڈیرہ تھا جو اس زمین کے مالک تھے۔ان میں ایک بزرگ سید احیاء الدین تھے جسے لوگ احیا کہتے تھے۔ اس لیے ان کے نام کی مناسبت سے لوگ اس ڈیرے کو احیا کا ڈیرہ کہتے تھے۔
ہندوستان کے بھیڈیاں کلاں قصور نامی گاوں میں بڑے جابر قسم کے بدمعاش رہا کرتے تھے۔شریف اور بھلے مانس لوگ ان سے بڑے خائف تھے۔بھیڈیاں کلاں گاوں میں تین بھائی محمد امین، محمد خان اور محمد سلطان بھی رہتے تھے۔ بہادر تو تھے مگر ان بدمعاشوں کو منہ نہیں لگانا چاہتے تھے۔محمد سلطان نے جو پر پرزے نکالے تو اس نے ان بدمعاشوں کی بدمعاشی کا جواب دینے کے جذبے کی خاصی آبیاری کی مگر دوسرے بھائیوں نے ان بروں سے ٹکر لینی مناسب نہ سمجھی۔انہوں نے اپنی زمینیں بیچ دیں۔اور یہاں اورنگ زیب عالمگیر کے عہدحکومت میں احیا کے ڈیرے میں آگئے اور ان کی پانچ سو ایکڑ زمین کاایک روپیہ فی ایکڑ کے حساب سے سودا کر لیا۔اور گاوں کی آبادی والی موجودہ جگہ پر 4 ایکڑ کے رقبے کی زمین کے گرد کچا کوٹ بنایا۔ اور جانب شمال مغرب ایک دروازہ لگایا گیا۔چاروں کونوں پرچار برج بنائے گے تا کہ برے وقت کے خطرے کی اطلاع لوگوں کو دے سکیں۔ پھر ان کی اولادیں اس کوٹ پناہ کے اندر پھلی پھولیں اور رہائشیں بناتی رہیں۔جس نے آہستہ آہستہ ایک بستی کا روپ دھار لیا۔ اس بستی کا نام انہوں نے احیا کا ڈیرہ کی مناسبت سے احیا پور رکھا۔بعضوں نے اسے احیا پور لکھا اور اب اسے ایحیٰی پور لکھا جاتا ہے۔بعض ایا پور بھی لکھتے ہیں جو درست نہیں ہے۔
آج پرانی آبادی کی نسبت نئی آبادی زیادہ پھیل گئی ہے مگر پرانی آبادی میں ایک خاص بات شروع سے اب تک موجود ہے کہ اس میں داخلہ کا صرف ایک ہی دروازہ ہے۔یعنی بوہڑ کے پاس جو دروازہ ہے وہی اس اندرونی گاوں کا رستہ ہے۔دوسرا کوئی رستہ یا گلی کسی بھی جانب ایسی نہیں ہے جو کسی شخص کو گاوں کے اندر لے جا سکے۔البتہ باہر کی آبادیاں اس بات سے مستشنٰی ہے۔ ان آبادیوں میں شاندار کوٹھیاں اور بنگلے بن گئے ہیں۔جن میں نئی تہذیب کے نئے لوگ رہنے لگے ہیں اب سارا گاوں تقریباَ پکے مکانوں پر مشتمل ہے۔ایک اندازے کے مطابق 225 گھر ہیں جن میں(دوہزار) سے زائد افراد رہائش پذیر ہیں۔
ایحیٰی پور کے سب لوگ کاشتکاری کے پیشہ سے وابستہ ہیں۔500ایکڑ زمین میں سے 50ایکڑ زمین نہر اور سڑکوں نے ہتھیا لی ہے۔بقیہ450ایکڑ زمین میں ایک مرلہ زمین بھی خالی نظر نہیں آتی۔باغ لگانے کے یہ لوگ بڑے ماہر ہیں۔حد نگاہ تک امرودوں کے باغ ہی باغ دکھائی دیتے ہیں انہوں نے سادگی اور اچھے اخلاق اپنانے پر اتفاق کر لیا ہے اور برائی کے خلاف جہاد پر اتفاق کر لیا ہے۔منشیات کے خلاف متحد ہو گئے ہیں۔مذہب اہل سنت پر متفق ہیں۔کوئی وہابی،دیوبندی نہیں ہے۔ نوجوان نسل تعلیم کی طرف زیادہ راغب ہے۔سرکاری ملازمتیں کر رہے ہیں۔کچھ نوجوان بیرون ممالک یعنی کویت، جرمنی اور سعودی عرب میں محنت مزدوری کرنے گئے ہوئے ہیں۔اور پاکستان کو زرمبادلہ دے رہے ہیں۔ حضرت بابا سید جندے شاہ اور حضرت بابا مالی شاہ یہاں اپنے وقت کے روحانی بزرگ ہوئے ہیں۔ان بزرگوں کے جب عرس ہوتے ہیں تو میلوں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔جیالے نوجوان لنگوٹے باندھ کر کبڈی کے اکھاڑے جما لیتے ہیں۔اور اپنی قوت اور فن کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
کالا پہلوان لوہار اور محمد صدیق پہلوان لوہار نے پہلوانی میں خوب نام کمایا ہے۔

مندرجہ ذیل اشخاص کے نام گاوں میں زیادہ پہچانے جاتے ہیں۔
حاجی محمد جنید ولد محمد حسین عرف اللہ دتہ
حاجی عنایت علی ولد ملک امام دین
ملک محمد طفیل ولد ملک کمال دین

بذریعہ معلومات
ملک محمد حسین عرف اللہ دتہ
منظور احمد ولد ملک حسن دین

چودھری لوگ اپنی پشت پناہی کے لیے کچھ ڈانگ سوٹے والے لوگوں کو اپنے ساتھ رکھتے تھے۔اور اگر کسی دوسری قوت کے ساتھ ٹھن جاتی تو جتھہ بند ہو کر مقابلہ کرنے کے لیے ان لوگوں کو جو ان کے زیر اثر ہوتے اکٹھہ کر لیتے۔ خود پور کے سکھوں کے ساتھ ایسے مقابلے اکثر ہوتے رہتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے ہری پور نول نزد قصور کے نول بھٹی خاندان اور گیلن نزد قصور کے ارائیں لاہوے خاندان کے دو بہادر اور شیردل مسلمانوں کو اپنے ہاں آباد کیا۔ ان دونوں خاندانوں کےمورثان اعلٰی آپس میں جگری دوست تھے۔لاہوے خاندان کے مورث اعلٰی کو 200 ایکڑ زمین دی گئی اس نے ٹھٹھہ لاہوے کی بنیاد رکھی اور نول خاندان کے مورث اعلٰی نے ٹھٹھہ نولاں یا جھگیاں نولاں کو آباد کیا۔ یہ دونوں بستیاں آج سے 200 سال قبل آباد ہوئیں۔

ٹھٹھہ لاھوے
یہ بستی شرقپور شریف سے 2 میل (3کلو میٹر) کے فاصلے پر جانب جنوب مغرب میں واقع ہے۔دریائے راوی اس سے 2 کلومیٹر کے فاصلے پر جانب مشرق بہتا ہے۔ ٹھٹھہ میں 100 کے قریب گھر ہیں اور 600 کے قریب لوگ آباد ہیں۔زیادہ مکان پختہ ہیں مال مویشی والی حویلیاں بھی ہیں۔ لوگ پرانی وضع کے ہیں اور سلوک و اتفاق سے رہتے ہیں۔اپنے جھگڑے اپنے ہاں طے کر لیتے ہیں۔ اگر کوئی پارٹی تھانہ تک چلی جائے تو بھی صلح صفائی اپنے ڈیروں پر کر لیتے ہیں۔ ٹھٹھہ کا سارا رقبہ زیر کاشت ہے۔زمین بڑی زرخیز ہے۔مونجی،گندم،سبزیاں اپنے اپنے موسم پر خوب بہار دکھاتی ہیں۔امرودوں کے باغات بھی خاصے ہیں۔مزدور پیشہ لوگ شرقپور شریف میں مزدوری کرنے کے لیے آتے ہیں۔بعض لوگ شیر فروشی کا کام بھی کرتے ہیں۔مالی اعتبار سے لوگ زیادہ مضبوط نہیں ہیں۔ نئی نسل تعلیم میں دلچسپی لے رہی ہے گاوں میں ایک پرائمری سکول ہے جس میں لڑکے لڑکیاں اکٹھے پڑھتے ہیں۔
مندرجہ ذیل لوگ زیادہ پہچان کے مالک ہیں۔
ملک حسن دین ولد امام دین
بابا سراجدین ولد محمد بوٹا
ماسٹر شاہ محمد ولد اللہ بخش عرف کالے خاں
بشیر احمد ولد دل محمد
محمد سعید انجم ولد شاہ محمد

ٹھٹھہ نولاں یا جھگیاں نولاں
ٹھٹھہ لاہوے کے قریب ایک کلو میٹر کے فاصلے پر یہ بستی آباد ہے۔زرعی زمین کا رقبہ 160 ایکڑ ہے۔اسے نول خاندان نے آباد کیا۔بعد میں کھوکھر بھی ان میں شامل ہوگئے۔چنانچہ گاوں کے مجموعی رقبے میں سے 1/3 حصے کے مالک کھوکھر خاندان کے لوگ ہیں۔ 40 کے قریب کچے مکانوں والی اس بستی میں 250 کے قریب لوگ رہتے ہیں۔صرف 4 پختہ مکان ہیں۔گاوں کی ساری زمین زیر کاشت ہے۔ہریالی اور سبزہ دور تک دکھائی دیتی ہے۔گندم،مونجی اور سبزیاں خوب کاشت ہوتی ہیں۔اور باغات بھی اپنی بہار دکھاتے ہیں۔ گاوں میں بابا بڈھن شاہ کا دربار ہے۔یہاں22 ہاڑ کو میلہ لگتا ہے۔بچے ،عورتیں اور مرد بڑ ے شوق سے اس کی رونق کو بڑھاتے ہیں۔کبڈی کا اکھاڑہ جمتا ہے تو کوٹ محمود،خود پور،نور پور ارائیاں،سلطان پور،ایحیٰی پور اور فیض پور کے جیالے اور جوشیلے کھلاڑی لنگوٹے باندھ کر میدان میں آتے ہیں۔ڈھول بجا بجا کر کھلاڑیوں کو داد ملنے لگتی ہے۔
گاوں کے زیادہ معروف نام یہ ہیں۔
محمد حیات ولد سعید احمد
ہدائت علی ولد سید محمد
ذوالفقار علی ولد محمد بوٹا کھوکھر
امیر علی ولد حاکم علی کھوکھر
حبیب اللہ ولد معراجدین کھوکھر
بزریعہ معلومات
ماسٹر شاہ محمد،حسن دین

بھینی اصل میں بہنی تھا۔جو بہنا(بیٹھنا ) سے بنا ہے۔بہنی پڑاو کے معنی میں استعمال ہوتی ہے۔ یعنی ٹھہرنے کی جگہ، خانہ بدوش لوگ جب کسی جگہ پر قیام کرتے تووہ اپنے قافلہ کے کسی بزرگ کے نام کے ساتھ بہنی کا لفظ استعمال کر کے اپنا پتہ بتایا کرتے تھے۔جیسے باگے(باغے)دی بہنی (باغے کی بہنی) باغے سے مراد باغ علی ہے۔ایسے ہی رحمے(رحمت سے) دی بہنی (رحمے کی بہنی) ۔ یہ پڑاو یا بہنیاں عارضی طور پربنتی تھیں۔ لیکن جب کسی جگہ پر کوئی مستقل آبادی ہوتی اور اس آبادی کے بعض لوگ اپنے ڈھور ڈنگر لے کر ایسی جگہ پر جا بیٹھتے جہاں چراگاہ بھی ہوتی اور پانی بھی تو وہ لوگ بھی کہا کرتے کہ ہماری بہنی فلاں جگہ پر ہے۔عموماَ ایسی بہنیاں دریا کے کنار ے ہوا کرتی تھیں۔اگر ان لوگوں نے اپنی اس عارضی بستی (بہنی)کا کوئی مستقل نام نہیں رکھا تو وہ بستی بھی بہنی کے نام سے شہرت پا جاتی۔ ہم جس بستی کا ذکر کر رہے ہیں وہ بھی بہنی سے بنی ہے۔ یعنی 'بھینی' یہ شرقپور شریف کے شمال مشرق کی جانب واقع ہے۔اس بھینی کے قریب ایک بہت بڑا قصبہ نما گاوں ڈھانہ تھا جو اب بھی ہے۔مگر اس کی آبادی کا پھیلاو نہایت تھوڑا سا رہ گیا ہے۔ کیونکہ دریائے راوی نے اس کے ساتھ دست برد کا کھیل جاری رکھا ہے۔وہاں سے کچھ ڈوگر،ارائیں اور سکھ اپنے مال مویشی لے کر پندرھویں صدی کے نصف یا آخر میں یہاں آکر آباد ہوئے۔ارائیں اسے بہنی ارائیاں کہتے تھے۔سکھ اسے بہنی سکھانوالی کہتےاور ڈوگر اسے بہنی ڈوگراں کہنے لگے۔اس طرح ایک گاوں کے تین نام بولے جاتے۔باہر سے آنے والے لوگوں کو شبہ رہتا کہ انہوں نے کس بھینی میں جانا ہے۔لہٰذا اس وقت کے لوگوں نے خود ہی اسے صرف بھینی کا نام دیدیا۔
پندرھویں صدی کے نصف یا آخر کے اعتبار سے کہا جا سکتا ہے کہ یہ بھینی شرقپور شریف سے کم و بیش ایک سو سال قبل آباد ہوئی۔ جب شرق پور شریف کی بنیاد پڑی تو بھینی ایک قصبہ نما گاوں بن چکی تھی۔اس کے درمیان میں ایک فرلانگ لمبا بازار تھا جس کے دونوں اطراف دروازے تھے۔جب دروازے بند کر دئیے جاتے تو پورا گاوں ایک قلعہ کی طرح محفوظ ہو جاتا تھا۔اس بازار میں استعمال کی ہر ایک چیز دستیاب ہو جایا کرتی تھی۔کپڑے ،زرگری اور کریانے کا خوب کاروبار تھا۔ تھوک و پرچون کی دکانوں پر بھیڑ رہتی تھی۔ بھینی کا گاوں دریائے راوی کے بائیں کنارے سے کوئی 5۔1 میل دور آباد تھا۔ دریا کا پتن شرقپور شریف کی ٹاہلی والی مسجد کی جگہ کے بڑا قریب تھا اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کشتی کا رسہ اس ٹاہلی سے باندھا جاتا تھا جس کی نسبت سے اسے ٹاہلی والی مسجد کہتے ہیں۔شرقپور کی بنیاد پڑنے کی بعد اس دریا نے اپنا بائیاں کنارہ نگلنا شروع کر دیا۔ یہاں تک کہ بھینی کی رونقیں سب غرق آب ہو گئیں۔مگر اس کی غرقابی کا عمل جاری رہا۔اب اس کے دائیں کنارے پر بھینی کے باہمت لوگوں نے نئے سرے سے گھر بنانے اور بسانے شروع کر دئیے ہیں۔دریا بھینی کی زمینوں پر زرخیز مٹیاں بچھا کر بہت آگے نکل گیا۔ اتنا آگے کہ دریا کی بپھری لہروں کا شور بھی سنائی نہ دیتا تھا۔اس کے بعد چوہنگ،شاہ پور کانجرہ،بولے گڑھی کی زمین اس کی خوراک بننے لگی۔
اس روایت کی روشنی میں ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ موجودہ بھینی کی آبادی شرقپور کی آبادی کے بعد کی ہے ۔درمیان سے دریا کی رکاوٹ ہٹ گئی۔ دونوں بستیاں بڑھنے پھولنے لگیں۔ دونوں کے مفاد ایک دوسری سے وابستہ ہو گئے۔پھر تین سو سال تک ان آبادیوں نے خوب ترقی کی۔ مگر دریا کو پھرغصہ آگیا۔اس نے تخریبی عمل کی کسیاں پھر نکال لیں اور بھینی کی زرخیز زمینیں ڈھانی شروع کر دیں۔ اس کا یہ عمل 1973ء تک برابر جاری رہا۔یہاں تک کہ بھینی پانچ حصوں میں منقسم ہو گئی۔ 1۔پرانی بھینی۔دریائے راوی پر حفاظتی بند باندھ کر اب اسے محفوظ کر لیا گیا ہے۔
2۔غریب آباد، جب 1955 میں سیلاب آیا تو وہ لوگ جو پاکستان بننے پر یہاں آباد ہوئے تھے۔ان کے گھر غرق ہو گئے تو انہوں نے ہندووں کے مرگھٹ والی جگہ(ہندو اوقاف کی زمین) پر مکانات بنا کر ایک نئی بستی آباد کر لی۔
3۔جھگی سائیں عمر دین۔1973ء کے سیلاب (حفاظتی بند ٹوٹنے پر) لوگوں نےمکانات بنا لیے۔
4۔ٹھٹھہ بولیاں۔یہ آبادی 1955ء سے پہلے ہی سیلاب کی دست برد سے بچنے کے لیے بن چکی تھی۔
5۔نئی بھینی۔بستی 1955 میں شرقپور شریف کی شمالی جانب انٹر کالج کے قریب ہندو اوقاف کی جگہ پر آباد ہوئی۔
ان آبادیوں سے بھینی کا اتحاد ٹوٹ گیا۔محبتیں بٹ گئیں۔لوگ اپنی زمینوں سے دور ہو گئے۔بعضوں کے کاروبار تلپٹ ہو گئے۔ دریائے راوی کی یہ زیادتیاں نئی نہ تھیں۔ وہ مدت سے اس شغل تخریب میں مصروف رہا ہے اور بستیوں کی بستیاں نیست و نابود کرتا آیا ہے۔مگر بھینی والوں کی بد دعا بھی اسے کھا گئی ہے۔ ہندوستان نے اس سے سارا پانی چھین لیا ہے۔اب دریا خشک ہے۔بھینی کے ایک ظریف الطبع آدمی(اقبال ورک)نے کہا کہ:۔
"جے دریائے راوی نے ساڈا ککھ نہیں چھڈیا تے ایہندا اپنا ککھ وی نہیں رہیا۔ایہندی رگاں وچوں وی اللہ نے پانی کھچ لیا اے۔"
بھینی میں ڈوگر، ارائیں، کھوکھر، گجر، ماچھی، ترکھان اور تیلی لوگ زرعی رقبے کے مالک ہیں جن کی محنت سے باغات کی بہاریں ہیں۔ سبزیات کے ہرے بھرے کھیت دکھائی دیتے ہیں۔ مونجی اور گندم خوب پیدا ہو رہی ہے۔ بھینی میں بعض بزرگان دین کے مزارات بھی ہیں۔ جن کے سالانہ عرس اور میلے ہوتے ہیں۔کبڈی اور کشتیوں کے اکھاڑے لگتے ہیں اور دیہات کی ثقافت کا رنگ خوب نکھر کے سامنے آتا ہے۔
1۔بابا غلام مصطفٰے کا میلہ 10 ہاڑ کو ہوتا ہے۔
2۔ میلہ میاں والی کھوئی 27 ہاڑ کو لگتا ہے۔
3۔بابا بودیاں والا یہ میلا 18 ہاڑ کو ہوتا ہے۔
4۔سوڑھے والا دربار یہاں 28 ہاڑ کو میلا ہوتا ہے۔
سوڑھا اس کچے کنویں کو کہتے ہیں جہاں بارش کا پانی جمع ہوتا ہے اور لوگ اسے استعمال کرتے ہیں۔
5۔میلہ جھگی بابا عمر دین یہ میلہ ساون کی دوسری جمعرات کو ہوتا تھا۔مگر اب 14۔15۔اگست کو ہونے لگا ہے۔
بھینی کے گاوں میں مندرجہ ذیل اشخاص زیادہ شہرت کے حامل ہیں اور ان کے ناموں کی خوب پہچان ہے۔
ملک اصغر علی ڈوگر ولد خیر دین
ماسٹر محمد عاشق ولد برکت علی
ملک بہاول عرف بہالا
بابا امام دین
برکت علی ولد امام دین
نعمت علی ولد محمد ابراہیم
فقیر محمد ڈوگر
مستری رحمت علی ولد احمد دین
مستری نور محمد ٹھیکیدار ولد بدر دین
مستری محمد اسماعیل ولد نور محمد
بابا محمد حیات کھوکھر
محمد حنیف ولد شیر محمد
یہاں ایک بلند قامت شخص بھی ہے جو صوبہ بھر(پنجاب) میں طویل القامت ہے۔ اس کا نام ریاض احمد ولد فرزند علی ولد محمد بوٹا چوکیدار ہے۔اسے لوگ دیکھنے کے لیے دور دور سے آتے ہیں۔
حاجی محمد رمضان ولد عبدااللہ اپنے وقت کے بڑے پھرتیلے کبڈی کھیلنے والے تھے۔
رحمت علی ولد محمد اسماعیل اونٹ پر سے پھلانگ جایا کرتے تھے۔
حکیم محمد شریف،حکیم محمد عاشق ولد محمد شریف مانے ہوئے حکما میں سے تھے۔
احمد دین جراحی میں انتہائی شہرت کا حامل تھا۔اور گلاب دین گجر طاقت میں سب سے آگے تھا۔
بھینی گاوں کا رقبہ1000 ایکڑ کے لگ بھگ ہے۔٪96 رقبہ زیر کاشت ہے۔بھینی کے قریب ہی سرکاری جنگل ہے جس کی وجہ سے یہاں کے لوگوں کو خاصی مزدوری مل جاتی ہے۔نئی نسل میں تعلیم کی طرف رجحان بڑھ رہا ہے۔لوگ اپنے قول کے پکے ہیں۔اگر کوئی جھگڑا ہوتا ہے تو قول توڑنے پر ہی ہوتا ہے۔اپنے فیصلے خود کر لیتے ہیں۔
بذریعہ معلومات
ماسٹر محمد صدیق، ماسٹر محمد اشفاق
ملک محمد ارشد ڈوگر، ماسٹر شاہ احمد

کوئی 1973 میں دریائے راوی نے کٹاو اور غرقابی کا عمل اس قدر تیز کر دیا کہ پرانی بھینی کا زرعی رقبہ نگلنے کے بعد مکانوں کی دیواریں بھی گرانے لگیں۔بھینی کے لوگ اپنا سازوسامان باندھ کر شرقپور کے گورنمنٹ پائلٹ سکینڈری سکول میں آ بیٹھے۔ان لوگوں کے بے گھر ہونے کی خبریں اخباروں،ریڈیو اور ٹیلیویژن میں سنائی جانے لگیں۔چنانچہ شیخ عبدالرشید،غلام مصطفٰے کھر اور خود ذوالفقار علی بھٹو مختلف اوقات میں یہاں آئے۔یہ لوگ ان کے فریادی ہوئے۔ملک اکبر علی حاجی ڈھانے والے اور بھالا ڈوگر نے غرقابی کی وضاحت کی۔ اب محکمہ مال والوں سے پوچھا گیا کہ کیا کہیں سرکاری زمین خالی پڑی ہے۔جہاں ان لوگوں کو آباد کیا جائے۔ کھر صاحب کے علم میں یہ بات لائی گئی کہ شرقپور شریف کے شمالی جانب 16ایکڑ کا رقبہ ہندو اوقاف کا پڑا ہے۔لہٰذا ان لوگوں کو اس زمین پر آباد کرنے کی اجازت دی گئی۔یہ زمین گورنمنٹ پائیلٹ سکینڈری سکول نے پٹے پر لے رکھی تھی۔سکول انتظامیہ نے یہاں باغات اور مونجی لگا رکھی تھی۔جونہی بھینی کے ان لوگوں کو اجازت ملی۔انہوں نے مونجی کاٹ کر مویشیوں کو کھلا دی اور باغات کے پودے اکھاڑ کر چولہے کا ایندھن بنا لیا۔ سکول انتظامیہ نے اس کے خلاف احتجاج کیا۔پولیس نے مداخلت کی۔مگر کچھ بھی نہ ہوا۔چند ہفتوں میں کم و بیش 400 گھرانوں نے جھگیوں اور کچے پکے مکانوں کی چھتوں کے نیچے چارپائیاں بچھا دیں۔ہر گھرانے نے اپنی مرضی سے زمین پر قبضہ کر لیا۔کسی نے 5 مرلے کے گرد حدود قائم کر دیں۔کسی نے 10 مرلے اور کسی نے ایک کنال پر ملکیت کا حق بنا لیا۔ان گھرانوں میں تقریباَ 50 گھرانے عیسائیوں کے تھے۔بعد ازاں لوگوں سے =/65 روپے فی مرلہ کے حساب سے رقم وصول کی گئی۔ اس زمین کے بچیوں بیچ ایک پختہ سڑک گزرتی ہے۔جس کی دائیں جانب 7 ایکڑ اور بائیں جانب 9 ایکڑ کا رقبہ ہے۔اسی دوران میں گورنمنٹ انٹرمیڈیٹ کالج کی بلڈنگ کے لیے زمین درکار تھی۔دائیں طرف والی زمین کالج کو دیدی گئی۔اور بائیں جانب والی اسی بستی کے حوالے کی گئی۔اس بستی کا نام نئی بھینی رکھا گیا۔ اس بستی کے مکان 6 گلیوں میں منقسم ہیں۔ یہ گلیاں پختہ سڑک سے شروع ہو کر جانب مغرب بڑھتی ہیں۔کئی مکانوں کا فاصلہ طے کرنے کے بعد ایک لمبی گلی کے ساتھ چوک بناتی ہوئی آگے گزر جاتی ہیں۔یہ لمبی گلی پختہ سڑک کے متوازی ہے۔ اس بستی میں 2 مسجدیں ہیں۔ایک گرجا گھر ہے اور ایک مزار بابا ولی محمد عرف بابا ولیا کا ہے جہاں 21 بھادوں کو میلہ لگتا ہے۔اکثر لوگ مزدور پیشہ ہیں۔ جو مختلف جگہوں میں جا کر مزدوری کرتے ہیں۔ گویا کہ یہ بستی ایک ہوٹل کی مانند ہے۔جہاں صرف لوگ کھاتے پیتے ہیں مزدوری وغیرہ اور جگہوں پر جا کے کرتے ہیں۔
بذریعہ پختہ سڑک شرق پور سے یہ بستی ملی ہوئی ہے۔لاری اڈہ سے صرف 3 فرلانگ کے فاصلے پر ہے۔
مندرجہ ذیل حضرات اچھی پہچان کے حامل ہیں۔
محمد اصغر شاہ
ماسٹر سردار محمد
ماسٹر شاہ محمد
ماسٹر محمد عاشق
محمد بخش عرف مند بخش
حاجی غلام محمد
بذریعہ معلومات
ماسٹر سردار محمد، حاجی غلام محمد

۔1973ء کے سیلاب متاثرین حضرت بابا عمر الدین کے مزار کے پاس آ کر اپنی زمین پر آباد ہو گئے۔جو رفتہ رفتہ ایک چھوٹی سی بستی بن گئی۔اس وقت یہ بستی تقریبا 35 گھرانوں پر مشتمل ہے۔جن میں کم و بیش 200 افراد آباد ہیں۔اس کا نام جھگی عمر دین یا عمر دی جھگی ہے۔کیونکہ اس بستی کے آباد ہونے سے پہلے ہی بابا عمر دین کے ڈیرے کو عمر دی جھگی کہا جاتا تھا۔یہ بستی سڑک کے دائیں کنارے واقعہ ہے اور غریب آباد سے چند قدم پر واقع ہے۔ ان آبادکاروں میں بیشتر لوگ زراعت پیشہ ہیں۔بستی کے اردگرد ہرے بھرے کھیت ہیں۔اور بستی والوں کو تازہ ہوا میسر ہے۔گویا کہ صحت مند ماحول میں صحت مند زندگی بسر کر رہے ہیں۔ٹیڑھی میڑھی گلیاں ہیں۔غریب آباد والا پرائمری سکول اس بستی میں ہے۔لوگوں میں تعلیم کا رجحان پیدا ہو چکا ہے۔وہ بڑے شوق سے اپنے بچوں کو سکول میں بھیجتے ہیں۔ محمد رفیق بولا بہتر پہچان کا حامل ہے۔
بذریعہ معلومات
سید غلام فرید شیرازی

شرق پور شریف کی مشرقی جانب جو سڑک پرانی بھینی کو جاتی ہے اس کے بائیں کنارے پر کم و بیش 45 گھروں پر مشتمل چھوٹی سی بستی آباد ہے جو محلہ نبی پورہ سے صرف 200 گز کے فاصلے پر ہے۔اسے غریب آباد کہتے ہیں۔اسے مصیبت پورہ بھی کہا گیا اور جھوراں دا ٹھٹھہ بھی۔ جھوراں دا ٹھٹھہ اس لیے کہ اسے آباد کرنے والے جھور قوم سے تعلق رکھتے تھے۔مصیبت پورہ اس لیے کہ یہ لوگ دریائے راوی کی طغیانی کے باعث بے گھر ہو کر مصیبت کے مارے یہاں آباد ہوئے۔ان کاپیشہ مچھلی پکڑنا اور فروخت کرنا تھا۔پہلے ہی غریب تھے علاوہ ازیں ان کے جو تھوڑے بہت اثاثے تھے وہ ہندوستان میں رہ گئے۔جھگیاں بنا کر بھینی میں آباد ہوئے۔مچھلی کے شکار سے تھوڑی بہت کمائی سے کچے سے گھر بنائے مگر1955ء میں دریائے راوی کی موجوں کے غصے کے سامنے یہ کچے مکان زمین بوس ہو گئے۔ ملک مظفر علی مرحوم نے انہیں اپنی زمینوں میں سے ایک ایکڑ زمین کی پیش کش کی۔مگر یہ لوگ کہنے لگے کہ چونکہ ہم لوگ مچھلی پکڑنے کا کام کرتے ہیں۔لہٰذا دریا کے قریب بسنا چاہتے ہیں۔پس موجودہ جگہ پر جو ہندو اوقاف کے تحت تھی میں آباد ہو جانے کو کہا۔یہ رقبہ 3.6 کنال ہے۔اس کے قریب ہی ہندووں کے مرگھٹ کی زمین تھی ان لوگوں نے مرگھٹ والی زمین میں قبرستان بنا لیا اور دوسری پر مکانات بنا لیے۔ اس کے سارے گھر تین(3)گلیوں میں آباد ہیں۔ِ
ہندوستان نے جب دریائے راوی کا پانی روک لیا تو دریا خشک ہو گیا۔لہٰذا ان لوگوں کا مچھلیاں پکڑنے کا کام ٹھپ ہو گیا۔اب یہ لوگ محنت مزدوری کر کے گزر اوقات کر رہے ہیں۔انہوں نے یہاں ایک مسجد بنائی ہے۔ جس میں یہ لوگ نمازیں بھی پڑھتے ہیں اور ان کے بچے قرآن مجید کی تعلیم بھی حاصل کرتے ہیں۔مسجد میں مکتب سکیم کے تحت پرائمری سکول بھی بنا ہوا ہے۔ ان کے 225 ووٹر حلقہ شرقپور میں شامل ہیں۔
مندرجہ ذیل حضرات اچھی پہچان کے حامل ہے۔
محمد جمیل عرف مہنگا ولد نانک
محمد الیاس ولد حاجی محمد حسین
سید غلام فرید ولد سید یعقوب علی شاہ
محمد لطیف ولد عمر دین
بذریعہ معلومات
سید غلام فرید شیرازی

جس طرح زمانہ برا نہیں ہوتا بلکہ زمانہ والے اچھے نہیں ہوتے۔ایسے ہی ڈھانہ تو برا نہ تھا مگر ڈھانہ والوں نے اپنے ناپسندیدہ کاموں سے اسے بدنام کر کے رکھ دیا ہے۔اس کا اثر یہ ہوا کہ ہر وہ شخص جرائم پیشہ لگنے لگاجس کا تعلق ڈھانے سے ہوتا۔خواہ وہ وہاں کی برائیوں کے خلاف جہاد کرنے والا ہوتا۔ مگر ایک وقت ایسا تھا کہ یہ گاوں جو شرقپور شریف کے جانب مشرق 2 میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ایک پر رونق قصبہ تھا۔دس ہزار افراد یہاں رہتے بستے تھے۔اور عزت کی روٹی کھاتے تھے۔چونکہ اس کے آباد کار کھوکھر قوم سے تعلق رکھتے تھے اس لیے اسے ڈھانہ کھوکھراں کہتے ہیں۔ اس کی بنیاد چار ایسے افراد نے رکھی جو دریائے راوی کی موجوں کا شکار ہو گئے تھے۔مگر چونکہ ان کی زندگی ابھی باقی تھی انہیں دریا کے پانیوں میں بہتی ہو ئی ایک لکڑی کا سہارا مل گیا جو انہیں یہاں تک لے آئی۔ دریا کی شکست و ریخت سے یہاں بڑے بڑے ڈھائے بنے ہوئے تھے۔ان لوگوں نے یہاں جھگیاں بنا لیں۔اور ڈھائے کی نسبت سے اس کا نام ڈھانہ رکھا۔پھر ان کے عزیز و اقارب بھی ادھر چلے آئے اور یہاں کی سات سو ایکڑ زمین کے مالک بن گئے۔ دریا کی لائی ہوئی مٹی سے بنی ہوئی زمین بڑی زرخیز تھی۔خوب فصلیں اگنے لگیں۔لوگوں میں خوشحالی آگئی۔کہا جاتا ہے جولاہوں کے 140 کرگے چلا کرتے تھے اور بڑا نفیس کپڑا تیار ہوتا تھا۔ چاہیے تو یہ ہے کہ خوشحال آبادیوں کو دیکھ کر دوسرے لوگ بھی محنت کریں اور اپنی زندگیوں کو خوشحال بنائیں مگر عموماَ ہوتااس کے خلاف ہے۔اردگرد کے برے لوگوں نے اس گاوں کو تاک لیا اور یہاں کے گھروں کی چوریاں کرنے لگے۔ اب ان لوگوں نے بھی ڈانگ سوٹا پکڑا اور نہ صرف اپنے مال و جان کی حفاظت کی بلکہ جواباَ کاروائی کرنے لگے اور پھر یوں ڈھانہ چوروں کی بستی بنتا گیا۔پھر ایک وقت ایسا آیا کہ دنیا جہاں کا ہر جرم ان لوگوں سے وابستہ ہونے لگا۔ اب ڈھانہ سے قدرت نے بھی انتقام لیا۔دریائے راوی کی بپھری ہوئی موجوں نے تین بار اسے نگل لینے کی کوشش کی اور یوں ڈھانے کی بستی سکڑنے لگی۔چنانچہ 10 ہزار نفوس کی بستی صرف 7 سو افراد پر مشتمل رہ گئی۔ حاجی اکبر علی اس بستی کا باشندہ تھا۔جو اس کے پراگندہ ماحول سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔برائی کے جہان میں اس کی اڑانیں ابھی شروع ہوئی تھیں کہ اللہ نے اسے سیدھا رستہ دکھا دیا ۔وہ اس جرائم کی دنیا سے نکل کر شرقپور شریف میں آبسا۔ ڈھانہ کے برے لوگوں کو حاجی اکبر پر بڑا مان تھا۔ وہ اس کے بل بوتے پرچوریاں کرتے۔سرکاری جنگل سے لکڑیاں کاٹتے، شراب کا کاروبار کرتے۔اور قتل کرنے سے بھی گریز نہ کرتے۔جب یہ لوگ پکڑے جاتے تو حاجی اکبر علی انہیں تھانے سے چھڑا لیتا تھا۔ ڈھانہ کی زمین بڑی زرخیز ہے۔لہلہاتے باغات عجب بہار دکھاتے ہیں۔ گندم اورچاول کی فصلیں خوب کاشت ہوتی ہیں۔سبزیاں بھی اگائی جاتی ہیں۔ سرکاری جنگل اور دریا کے کنارے کے باعث ایک وسیع چراگاہ یہاں کے لوگوں کو میسر ہے۔لہٰذا مال مویشی خوب پالتے ہیں اور ان کا دودھ خاصی آمدنی دیتا ہے۔ ملک نذر حسین جو کہ حاجی اکبر علی مرحوم کے بڑے بیٹے ہیں نے بتایا کہ اب ڈھانے کی نئی نسل تعلیم کی طرف راغب ہے۔تعلیم نے یہاں کے لوگوں کو ایک نئی روشنی دی ہے۔وہ زندگی کی درست راہوں کا انتخاب کرنے لگے ہیں اور ڈھانے کی چادر پر جو بد نما داغ لگے ہوئے ہیں انہیں یہ نسل یقیناَ دھو دے گی۔ یہ گاوں چار پتیوں پر مشتمل ہے جو یہ ہیں۔
۔ امی کے
۔پیرے کے
۔ستار کے
۔تاجو والئے
اس وقت اس گاوں کے جھگڑوں کے فیصلے ملک نذر حسین ولد حاجی اکبر علی اور حاجی نذر حسین عرف رانجھا ولد چوہدری غلام محمد عرف ملک گامن کرتے ہیں۔
بذریعہ معلومات
ملک نذر حسین ولد حاجی اکبر علی مرحوم

شرقپور شریف کے جنوب مشرق میں 5۔2 کلو میٹر کے فاصلے پر یہ گاوں آباد ہے۔گاوں کے رستے اور گلیاں دیکھیں تو ان کے نشیب و فراز سے پتہ چلتا ہے کہ یہاں کسی زمانے میں دریائے راوی بہتا رہا ہے۔آج یہ گاوں سر سبز باغات میں گھرا ہوا ہے۔ اس کے مکینوں کو ٹاہلیوں اور بڑھ کے درختوں کی ٹھنڈی چھاوں میسر ہے۔ اس گاوں کے بانی کا نام سہجو تھا جس کا تعلق سکھ مذہب سے تھا۔یہ سہجو تینوال کا رہنے والا تھا۔وہیں اس نے اسلام قبول کیا۔ اس کی یہ مذہبی تبدیلی اس کے خاندان میں پسند نہ کی گئی اور ساری جائداد سے محروم کر کے اسے گھر سے نکال دیا گیا۔سہجو چونکہ ایک بہادر نوجوان تھا۔اس نے یہ محرومی خندہ پیشانی سے قبول کر لی۔اور ادھر اس علاقے میں چلا آیا۔اور دریا کے کنارے رہنے بسنے لگا۔اس کے مال مویشی اس کا ذریعہ معاش تھے۔یہاں اس نے کھیتی باڑی کا کام سنبھالا سہجو کے نام کی مناسب سے اس بستی کا نام سہجووال رکھا گیا۔سہجو وال کی زرعی زمین کا رقبہ 700ایکڑ ہے۔ 500 گھرانے آباد ہیں اور کل آبادی تقریبا 3000افراد پر مشتمل ہے۔زیادہ لوگ زراعت پیشہ ہیں۔زمین خاصی زرخیز ہے۔ ہر قسم کی پیداوار ہو سکتی ہے۔ زیادہ تر گندم، مونجی،سبزیاں اور تمباکو کاشت ہوتا ہے۔ باغات بھی اپنی بہار چاروں طرف دکھا رہے ہیں۔ مڈل تک بچوں کی اچھی تعلیم کا انتظام گورنمنٹ مڈل سکول میں ہے۔جو ستر سال قبل پرائمری سکول تھا۔مگر پاکستان بننے کے فوراَ بعد اسے مڈل سکول کا درجہ دیدیا گیا۔یہاں دو روحانی بزرگ حضرت بابا یقین علیؒ اور دوسرے بابا خدا بخشؒ آسودہ خاک ہیں۔حضرت بابا یقین علی صاحبؒ کا میلہ ہر سال ہاڑ کے آخری بدھ کو ہوتا ہے۔ معروف شاعر اور روزنامہ نوائے وقت کے کالم نویس جناب وقار انبالوی اسی سہجووال میں رہتے تھے۔آٌ پ کا بڑا بیٹا ناصر علی وقار(پی۔اے۔ایف) میں پائیلٹ تھا اور دوسرے بیٹے عارف وقار لندن میں(بی۔بی۔سی) سے وابستہ ہیں۔ سہجووال کے لوگ عزت دار ہیں۔دوسروں کی عزت کی پہچان اور قدر کرنے والے ہیں۔جرائم پیشہ لوگوں کیلئے یہاں کوئی جگہ نہیں ہے۔گاوں کے چند معززین حضرات کے نام یہ ہیں۔
محمد ملک
وہاب دین
محمد رمضان نمبردار
محمد اسحاق
اکبر علی
محمد اعظم کبڈی کا بہترین کھلاڑی ہے۔میلوں ٹھیلوں میں جا کر کبڈی کھیلتا ہے اور جیت کر خوب انعام پاتا ہے۔
بذریعہ معلومات
ملک محمد علی

شرقپور سے کم و بیش 3 کلو میٹر کے فاصلے پر لاہور جڑانوالہ روڈ پر بائیں جانب ایک گاوں ہے جسے بھوئیوال کہتے ہیں اس گاوں کے بانی گھگ خاندان کے افراد ہیں۔گھگوں کے چار گاوں قریب قریب آباد ہیں۔یعنی غازی پورگھگھاں، ملک پور گھگھاں، قلعہ غوث گھگھاں اور بھوئیوال گھگھاں۔ ایسے لگتا ہے یہ چاروں گاوں ایک ہی زمانہ میں آباد ہوئے ہوں گے۔ایک رائے یہ بھی ہے کہ بھوئیوال کے گھگھوں نے ملک پور اور قلعہ غوث آباد کیا۔غازی پور جبکہ یہ محض غازی پور تھا۔یہ بہت پرانا گاوں ہے مگر جب گھگ آکر آباد ہوئے تو وہ احمد شاہ ابدالی (1747ء تا 1773ء) کا دور ہے۔لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ بھوئیوال بھی اس دور کا آباد ہے۔ بھوئیوال بھوئیا نے آباد کیا ہے۔بھوئیا کے نام کی مناسبت سے اس کا نام بھوئیوال رکھا گیا۔گاوں کے لوگ کہتے ہیں کہ بھوئیا نے نہ تو یہ زمین خریدی ہے اور نہ ہی اسے عطیہ میں ملی ہے۔بس وہ اپنے مال مویشی لے کر آیا اور یہاں دریا کے کنارے بہتر چراگاہ دیکھ کر ڈیرہ لگا لیا۔جو آہستہ آہستہ ایک آبادی کی شکل اختیار کر گیا۔ بھوئیوال کا زرعی رقبہ 650 ایکڑ ہے۔ مکانوں کی تعداد350 ہے اور تقریبا 2000 افراد کی آبادی مشتمل ہے۔ مکان کچے بھی ہیں اور پکے بھی۔پکے مکانوں کی تعداد زیادہ ہے۔ یہاں کے لوگ محنتی اور جفاکش ہیں۔ مٹی سے سونا اگلوانا کوئی ان سے سیکھے۔گاوں کی ساری زمین آباد ہے۔حد نگاہ تک ہرے بھرے کھیت دکھائی دیتے ہیں اور باغات اپنی بہاریں دکھا رہے ہیں۔زیادہ مشہور فصلیں گندم،مونجی،سبزیاں،تمباکو اور آلو وغیرہ ہیں۔ لوگ خوش پوش اور خوش خوراک ہیں۔اتفاق سے رہتے ہیں۔چھوٹے بڑے جھگڑے خود ہی نپٹا لیتے ہیں۔تحصیل تھانے میں جانے سے احتراز کرتے ہیں۔ بھوئیوال کے گاوں پر اللہ کی خاص کرم نوازی ہے کہ یہاں کا نوجوان طبقہ جوا،شراب،چوری چکاری سے بچا ہوا ہے۔مذہبی جھگڑے قطعاَ نہیں ہیں۔
یہاں مندرجہ ذیل مروان خدا آسودہ خاک ہیں۔
بابا نور شاہ ولی
بابا جھنڈے شاہ
بابا کرم علی شاہ
بابا ون پیر
بابا جھور شاہ ولی
بابا سرکی شاہ
بابا نیاز علی شاہ
ان بزرگوں کے عرسوں اور میلوں پر دیہاتی ثقافت بڑی نمایاں دکھائی دیتی ہے۔ نوجوان کشتیاں اور کبڈی کھیلتے ہیں۔کبڈی کھیلنے والوں میں یہ بہادر شیر جوان شامل ہیں۔
محمد ارشد لوہار
دلبر حسین
چودھری اعظم علی
چودھری حیدر علی
گاوں کے معززین میں یہ نام زیادہ نمایاں ہیں۔
چودھری عبدالقیوم
چودھری عاشق حسین
چودھری فقیر محمد نمبردار
دین محمد نمبردار
محمد اشرف
چودھری محمود احمد
بذریعہ معلومات
چودھری خلیل احمد
محمد اشرف ولد دل محمد