کافی دنوں سے دیکھ رہا تھا جب برداشت نہ ہوسکا تو یہ تحریر لکھ دی کچھ دنوں سے کچھ لوگ سوشل میڈیا پر بڑھ چڑھ کر یوں روالپنڈی احتجاج پر تبصرے کررہے ہیں کہ جیسا ان سے بڑا مفکر اعظم کوئی نہیں۔ یہ لوگ روڈ بلاک کرنے پر تو یوں سیخ پا ہورہے ہیں جسیے پہلے یہ جنت میں رہ رہے تھے۔ روز اس ملک کی ٹوٹی ہوئی سڑکوں پر سفر کرنے والے اور ٹریفک کے ازدہام میں دھکے کھانے والے۔ روز حکومت اور اس میں شامل علی بابا چالیس چوروں کے ٹولے سے لٹنے والے، روز ہسپتالوں اور پولیس سٹیشنوں میں ذلیل ہونے والے اور انصاف کے لیے ساری عمر عدالتوں کے چکر لگانے والے لوگوں کو ایک روڈ بلاک کرنے پر دکھ ہورہا ہے۔ ان جیسے ماڈرن لوگ جو ویسٹرن کلچر اور میڈیا سے متاثر ہیں۔۔۔ان کی نظر میں آج ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اہمیت وہی ہوگئ ہے جو یورپ میں عسائیوں کی نظر میں حضرت عیسی علیہ اسلام کی ہے انہوں نے تو اپنی گالیوں میں بھی حضرت عیسی علیہ اسلام کا نام نعوذباللہ استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔۔۔ ان جیسے لبرل لوگ یہ چاہتے ہیں کہ جو آج آقا کی ناموس پر جو احتجاج ہورہا ہے یہ جذبہ بھی مسلمانوں کے اندر مر جائے پھر چاہیے ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کارٹون بنائے جائیں یا پھر ان پھر فلمیں یا پھر نعوذباللہ ان کی شان میں گستاخی کی جائے یا پھر ایسا واقعہ پیش آئے جیسا ابھی آیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ تو پہلے تو ان جیسے لوگ سوشل میڈیا پر تھوڑا بہت احتجاج کریں گئے اور لوگوں کو بتائیں گے کہ ہم بھی ان کے ساتھ ہیں اور پھر لمبی تان کر سو جائیں گے اور کچھ نہیں تو کچھ سوشل میڈیا پر آکر ان احتجاج کرنے والوں کو برا بھلا کہیں گئے اور اپنے غلیظ اور علم سے عاری ذہن سے وہ الفاظ تراش کر لکھیں گے کہ کائنات بھی شرما جائے۔۔۔ان کو کچھ غرض نہیں اس بات سے کہ کس ہستی کے بارے میں کیا کچھ کیا جارہے ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ جو لوگوں نے ان مغربی طاقتوں کے آشرباد پر یہ سب کچھ کرر ہے ہیں وہ ابھی تو صرف یہ ٹیسٹ کررہے ہیں کہ مسلمانوں میں ایمان کی کتنی رمز باقی ہے۔ ابھی تو انہوں نے کچھ بھی نہیں کیا مگر جب ان کو یقین ہو جائے گا کہ مسلمانوں کا ضمیر، دل اور ان کا ایمان مردہ ہو چکا ہے تو پھر وہ کاری ضرب لگائیں گے وہی ضرب جو سپین (اندلس) میں 700 سو سال حکومت کرنے والے مسلمانوں پر لگائی گی تھی اور 700 سال حکومت کرنے کے بعد وہاں سے مسلمانوں کا نام ونشان مٹا دیا گیا تھا۔۔۔۔بدقسمتی سے آج کچھ مغربی میڈیا سے فنڈنگ لینے والے ہمارے میڈیا چینلز اس بات کو ہوا دے رہے ہیں کہ یہ سب کچھ غلط ہورہا ہے۔ وہ یہ سب کچھ بھول گئے ہیں کہ افغانستان میں آئے روز داعش ضرور پکڑ رہی ہے وہ لوگ آنہیں رہے بلکہ لائے جارہے ہیں حال ہی میں افغانستان کا سابق صدر حامد کرزئی یہ کہہ چکا ہے کہ داعش کے لوگوں کو درو دراز کے علاقوں میں پہچانے کے لیے ہیلی کاپٹر استعمال کیے جارہے ہیں۔ یہ شیطانی طاقتیں عراق، شام، لیبیا، یمن اور افغانستان میں تو اپنا کام کرچکی ہیں اب پاکستان کی باری ہے اور اس کے لیے وہ گراونڈ تیار کررہے ہیں اور یہ وہ چیک کررہے ہیں کہ ان مسلمانوں میں کتنا ایمان باقی رہ گیا ہے۔ میں یہ مانتا ہوں کہ دھرنے میں شامل کچھ علماکرام کی جانب سے جو زبان استعمال کی گئی ہے وہ عام حالات میں نہیں کرنی چاہیے تھی اور خصوصا علما کو مہذب زبان استعمال کرنی چاہیے مگر جہاں بات آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناموس کی ہو پھر وہاں یہ باتیں معنی نہیں رکھتیں بلکہ ان لوگوں کے لیے جنہوں نے یہ شرارت کی ہے یہ گالیاں بھی کچھ اثر نہیں رکھتیں۔ ان تمام مسلمانوں کو اپنے ایمان کا محاسبہ کرنا چاہیے جن کے دل روڈ بلاک کرنے پر تو سیخ پا ہو رہے ہیں مگر آقا کی ناموس پر ان کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔۔
نگاہِ عشق و مستی میں وہی اوّل وہی آخر
وہی قرآں وہی فرقاں وہی یٰسیں وہی طہٰ
جن کے دل بغض اور عداوت سے 1400 سو سال سے بھرے ہیں ان پر کوئی بھی چیز اثر نہیں کرنے والی وہ ہمیشہ دلیلیں نکالتے اور مانگتے رہے ہیں اور رہیں گے ان کی آنکھوں پر سیاہ پٹیاں پڑی ہیں اس لیے کہ عشق دلیل نہیں مانگتا بلکہ وہ تو آتش نمرود میں کود جاتا ہے اور یہ عشق ہی تھا جس کا فیصلہ عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تلوار نے کیا تھا کہ جو میرے آقا کا فیصلہ نہیں مانتا پھر اس کا فیصلہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تلوار کرے گی اور پھر اللہ نے بھی اس بات کے حق میں آیت نازل کرکے اس پر گواہی دی۔ یہ عشق ہی تھا کہ جب ابوجہل نے آکر ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا کہ تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہتے ہیں کہ وہ ایک رات میں بیت المقدس سے بھی ہو آئے اور زمین اور آسمان کی بھی سیر کرلی اور جنت اور دوزخ بھی دیکھ آئے کیا تم اس بات پر یقین کرتے ہو۔ ابو جہل نے سوچا تھا کہ شاید عقل اس بات پر دلیل مانگے گی اور جب جواب نہیں ملے گا تو اس کی جیت ہوگی۔۔۔۔۔۔مگر وہ نہیں جانتا تھا کہ
پروانے کو چراغ تو بلبل کو پھول بس
اور صدیق کے لیے ہے اللہ کا رسول بس
اور پھر سب نے دیکھا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ابوجہل سے کہا یہ تو کچھ بھی نہیں اگر میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سے بھی بڑی کوئی بات کہتے تو میں اس کو بھی مان لیتا اور جب عشق کی یہ بات حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں پیش کی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ ؤالہ وسلم نے فرمایا بے شک ابوبکر نے ٹھیک کہا اور یوں صدیق کا لقب حاصل پایا۔
کوئی دور رہ کر بھی اویس قرنی بن جاتا ہے اور کوئی پاس رہ کر بھی ابوجہہل (جاہلوں کا باپ) رہتا ہے۔
ہم بروز محشر حضورﷺ کو کیا منہ دیکھایں گے کہ ایک معذور شخص ختم نبوت ؐ کی خاطر برفانی رات میں روڈ پر کھلے آسمان تلے ایک چارپائی پر بیٹھ کر احتجاج کرتا ہے اور ہم گرم کمرے میں بیٹھ کر بجائے ختم نبوت پہ پہرا دینے کے الٹا تنقید کرتے ہیں۔
عطااللہ شاہ بخاری نے فرمایا تھا کہ اگر ایک انگریز بھی ختم نبوت پہ میرا ساتھ دیگا تو اسکا ساتھ بھی مجھے قبول ہے۔ حضورﷺ کی ختم نبوت پہ اپنی عقل کو جواب دےدو کیونکہ یہ عقل کا نہیں عشق کا معاملہ ہے پیر مہر علی شاہ صاحب نے کہا تھا کہ اگر میں مر بھی جائوں اگر میری ضرورت پڑے تو میری لاش کو ختم نبوت ؐ کی تحریک میں لےجانا ۔
۔جس ہستی کی خاطر یہ پوری کائنات بنی ہے اس ہستی کی ناموس پر بیٹھنے اور بات کرنے والوں پر سوال اٹھاتے ہیں اور اس کو الفاظوں کے الفاظی میں گھماتے ہیں اور حیلے اور بہانے تراشتے ہیں۔۔۔۔تمہیں اگر یہ دھرنا نہیں پسند تو اس کو سیاست کی سیاہی میں نہ گندہ کرو نہ اس پر بات کرو مگرجو اس تمام کائنات کی جان کا نام لیے کر بیٹھے ہیں اگر تھوڑی سی بھی عقل باقی ہے تو پھر خاموش رہو اور اپنے گھروں میں لحافوں میں جاکر دبکے رہو۔۔۔۔۔
ملک عثمان - شرقپور ڈاٹ کام