بوند بوند پانی کو ترستا گوادر

17/11/2017  (7 سال پہلے)   944    کیٹیگری : سماجی اور سیاسی    قلم کار : انور عباس انور

گوادر کی اہمیت کے اعتبار سے اسے صحیح مقام و مرتبہ دیاجائے گا. گوادر بلوچستان میں واقع ہے اور یہ بلوچستان کے 30 اضلاع میں سے سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ضلع ہے اور اپنی اس اہمیت کے اعتبار سے گوادر بین الااقوامی قوتوں کے لیے خاص توجہ کا مرکز و محور ہے۔ گوادر میں عالمی قوتوں کی دلچسپی کا باعث اس کا گرم اور گہراپانی ہے. گوادر بندرگاہ کی سب سے بڑی اہمیت یہ ہے کہ یہ سمندر کے اس حصے میں واقع ہے جہاں کا پانی گرم ہے گوادر کی یہ خوبی دنیا کی بہت کم بندرگاہوں کا میسر ہے۔گوادر کی بندرگاہ پر گرم پانیوں کے سبب یہاں سارا سال بحری جہازوں کی آمد و رفت جاری رہتی ہے جبکہ گرم پانی سے محروم بندرگاہوں پر جہاز وں کی ٓامدو رفت میں خلل پیدا ہوجاتا ہے۔

 
کہا جاتا ہے کہ گوادر بلوچستان کا حصہ نہ تھا اس وقت یہ عمان میں شامل تھا اور ایک پنجابی وزیر اعظم نے اس کی اہمیت کا احساس کرتے ہوئے اسے خرید کر بلوچستان میں شامل کردیا۔ بلوچستان کی تاریخ و ثقافت پر گہری نطر رکھنے والوں کو کہنا ہے کہ ’’گوادر‘‘ بلوچی زبان کے دو الفاظ ’’گوات‘‘ اور ’’ در‘‘ سے بنا ہے۔ یہ بندرگاہ پاکستان کے جنوب مغرب میں ساحل بحیرہ عرب اور خلیج فارس کے دروازے پر واقع ہے اہم ترین تجارتی سمندری شاہراہ آبنائے ہرمز گوادر کے قریب تر ہے جہاں سے 40 فیصد تیل کے تجارتی جہازوں کا گزرہوتا ہے۔
سی پیک کے منصوبے کے آغاز سے اس بندرگاہ کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے اس بندرگاہ کو بین الااقوامی معیار کے مطابق بنانے کے لیے چین نے سرمایہ کاری کی اورابتدائی طور پر اس نے248 ملین ڈالرز خرچ کیے اور پھر750 ملین ڈالرز مذید خرچ کرکے اس بندرگاہ کو کمرشل پورٹ میں تبدیل کردیا۔۔۔
 
چین اس بندرگاہ میں اس لیے دلچسپی لیتا ہے کیونکہ اس کا سب سے زیادہ فائدہ چین ہی کو ہوگا۔اس بندرگاہ کے استعمال سے چین کا اپنے تیل اور تجارتی سامان کو لانے اور لے جانے کے لیے 16000 کلومیٹر کا طویل سفر سمٹ کر محض 5000 کلومیٹر رہ جائے گا۔
 
ایران بھی اس بندرگاہ کو فروغ دینے میں دلچسپی ظاہر کررہا ہے ایرانی قیادت کے اعلان کے مطابق ایران گوادر میں چار بلین روپے خرچ کرکے یہاں تیل صاف کرنے کی ریفائنری قائم کرے گا. جس میں 4 لاکھ بیرل تیل روزانہ صاف ہوگا. جب کہ چین کی قائم کردہ آئل ریفائنری سے 60 ہزار بیرل تیل روزانہ صاف ہوگا۔اس بندرگاہ کا پہلے کنٹرول سنگاپور کے پاس تھا جب کہ سابق صدر زرداری نے اس کا کنٹرول چین کی ایک کمپنی کو سونپ کر کئی عالمی طاقتوں کو ناراض کیا۔
 
گوادر شہر اور گرد نواح کو عالمی معیار کا علاقہ بنانے کے لیے شب و روز ترقیاتی کام ہورہے ہیں. پراپرٹی کا کاروبار تیزی سے ترقی کررہا ہے. ٹاون پلاننگ بھی کمال کی ہے لیکن تمام حکومتی اقدامات کے باوجود گوادر کو بے شمار مسائل کا بھی سامنا ہے۔ کئی موبائل کمپنیز کے ٹاورز کام کرنے سے معذرت خوانہ رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔ پانی کی عدم فراہمی بھی شہریوں کی چیخیں نکلوا رہی ہے. حکومتی مشینری خصوصا گوادر کی ضلعی حکومت کے کانوں پر عوام کے رونے دھونے کا کوئی اثر نہیں ہورہا۔ ضلعی حکومت اور صوبائی حکومت کا یہ رویہ اور برتاؤ کسی طور بھی لائق تحسین نہیں۔ وفاقی حکومت کو اس جانب فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
 
میرے دوست حاجی طارق پرویز جو اندرون لاہور کے رہائشی تھے پہلے گلشن راوی منتقل ہوئے اور اب گوادر کے ہوکر رہ گئے ہیں سوشل میڈیا پر وہ گوادر کے شہریوں کے مسائل اور مشکلات کے لیے آواز بلند کرتے رہتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ گوادر میں گذشتہ چھ ماہ سے پانی کی فراہمی مسئلہ بنی ہوئی ہے. گوادر اور گرد و نواح کو پانی کی فراہمی آنکاڑہ ڈیم سے ہوتی ہے لیکن اب آنکاڑہ ڈیم میں پانی کا ذخیرہ خشک ہونے کے باعث پانی کی فراہمی میرانی ڈیم سے کی جا رہی ہے. جس کا ایک یوم کا خرچہ قریبا 90 لاکھ روپے بنتا ہے. پانی فراہم کرنے والے ٹینکرز مالکان نے بلز کی عدم ادائیگی کی وجہ سے پانی کی فراہمی معطل کر رکھی ہے جو بلز کی فوری ادائیگی کی یقین دہانی پر ٹینکرز نے ہڑاتال ختم کردی ہے ۔
 
ذرائع کے مطابق حکومت کے زمہ بلز کی مد میں ٹینکرز مالکان کے 60 کروڑ روپے واجب الالاد ہیں. مقامی افراد کا کہنا ہے کہ پانی کی فراہمی کا مسئلہ طویل اور سنگین ہوتا جا رہا ہے. گوادر شہر کے علاوہ مکران اور جیونی کے علاقے بھی خشک سالی کا شکار ہیں اگر کوئی ڈیم بنایا بھی گیا ہے تو خشک سالی کے باعث وہ ڈیم بھر نہیں سکا اور ابھی تک خالی ہے۔ مکران کے علاقوں کو بھی پانی میرانی ڈیم سے فراہم کیا جا رہا ہے اس ڈیم سے بڑے پیمانے پر پانی کے استعمال کی وجہ سے میرانی ڈیم کے ڈیڈ لیول پر پہنچنے کی اطلاعات ہیں ۔ اگر میرانی ڈیم کا پانی ختم ہوگیا تو گوادر سمیت متعدد علاقوں کو پانی کی فراہمی کہاں سے ہوگی؟ یہ صورتحال حکمرانوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے. حکومت کو اس سنگین مسلے کے حل کے لیے ہاتھوں پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھنا چاہیے کیونکہ الیکشن سر پر ہیں اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو حکمران جماعت کے لیے مشکلات پیدا ہوں گی۔ جس کا تدارک کے لیے حکومت کو ابھی سے اسکا ادراک کرنا ہوگا. بہترین حکومت وہی کہلانے کی مجاز اور مستحق ہوتی ہے جو مسائل کے پیدا ہونے کے راستے اور وجوہات و اسباب کو ابتدا ہی سے روک لینے کے اقدامات کرے۔
 
مقامی افراد کے مطابق گوادر کو شروع سے ہی پانی کی فراہمی کا مسلہ درپیش ہے وہاں کے لوگ حیرت زدہ ہیں کہ سمندر کے کنارے رہ کر بھی گوادر کے عوام پانی کی ایک ایک بوند کو ترس رہے ہیں۔ ان کا سوال ہے کہ جب گوادر کو انٹرنیشنل بندرگاہ بنانے کا فیصلہ کیا گیا تھاتو یقیننا یہ فیصلہ ہائی سطح پر اسلام آباد میں ہوا ہوگا پھر اس مسلہ کے حل کے لیے اسی وقت کیوں سوبچار نہیں کیا گیا اور اس کے لیے ٹھوس اقدامات کیونکر نہیں اٹھائے گئے؟
سوشل میڈیا پر شیئر کریں یا اپنے کمنٹ پوسٹ کریں

اس قلم کار کے پوسٹ کیے ہوئے دوسرے بلاگز / کالمز
بلوچ عوام کا دکھ کیا ہے
08/11/2017  (7 سال پہلے)   1001
کیٹیگری : سماجی اور سیاسی    قلم کار : انور عباس انور

کچھ غیر سیاسی باتیں شاتیں
05/11/2017  (7 سال پہلے)   1107
کیٹیگری : سماجی اور سیاسی    قلم کار : انور عباس انور

اپنا بلاگ / کالم پوسٹ کریں

اسی کیٹیگری میں دوسرے بلاگز / کالمز


اپنے اشتہارات دینے کیلے رابطہ کریں