دنیا کا عظیم فاتح کون ؟

30/01/2017  (7 سال پہلے)   1602    کیٹیگری : تاریخ    قلم کار : ایڈمن
سکندر اعظم جسے دنیا الیگزنڈر دی گریٹ کے نام سے جانتی ہے 323 قبل مسیح میں پیلا یونان (گریس) میں پیدا ہوا۔ اور 20 سال کی عمر میں اپنے باپ فلپ دوئم کے بعد بادشاہ بنا۔ 30 سال کی عمر تک اس نے شمال مشرقی افریقہ سے لیے کر ایشیا تک اس وقت کی قدیم سلطنتوں میں سب سے بڑی ایک سلطنت قائم کردی تھی۔ وہ اپنی جنگوں میں ناقابل شکست رہا اور تاریخ میں اسے ایک عظیم کمانڈر کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اپنے باپ فلپ کے  قتل کے بعد جب وہ تخت پر بیٹھا تو اس نے سب سے پہلے یونان میں ہونے والی بغاوتوں کو کچلا۔ پھر وہ ترکی میں داخل ہوا اور پھر ایران میں اور اس نے اس وقت کی سپر پاور ایران پر متعدد حملے کرکے اس وقت کے دارا ایران کو شکست دی۔ اس کے بعد اس نے یروشلم کو فتح کیا اور پھر بابیلون (عراق) کو فتح کرکے وہ مصر کی طرف بڑھا اور اپنے راستے میں آنے والے تمام علاقوں کو فتخ کرتا ہوا وہ ہندوستان کی طرف بڑھا اور ہندوستان میں راجہ پارس کو شکست دی۔ ہندوستان میں اپنے محبوب گھوڑے کی موت پر اس نے پھالیہ شہر کی بنیادرکھی۔ یہاں سے واپسی پر جب سکندرمکران کے علاقے جہلم اور میانوالی (موجودہ پاکستان کے شہر)  سے گزررہا تھا تو اس کی آرمی کے گھوڑوں نے پتھروں کو چاٹنا شروع کردیا یہ ان کے لیے بڑی حیران کن بات تھی اور اس کے علاوہ اس کی آرمی کے وہ بیمار گھوڑے جنہوں نے بھی ان پتھروں کو چاٹا سب ٹھیک ہوگے (یہ آج کے  پاکستان میں موجود کیھوڑہ نمک کی کان) کی دریافت تھی۔ لیکن اس کان میں سے نمک کی کھدائی اوراس کی تجارت مغل بادشاہوں کے دور میں شروع ہوئی۔ خیر جب سکندر واپس جارہا تھا تو اس کو بخار نے آگیرا اور اسی بخار کی وجہ سے 33 سال کی عمر میں بخت نصر کے محل بابیلون میں فوت ہوگیا۔ دنیا اس کو ایک عظیم فاتح اور بادشاہ کے طور پر جانتی ہے اور تاریخ میں اسے ایک ناقابل شکست فاتح کے طور پر جانا جاتا ہے۔ لیکن آج اکسیویں صدی میں ہم تاریخ دانوں کے آگے یہ سوال رکھ سکتے ہیں کہ کیا واقعے ہی سکندر ایک عظیم جنرل تھا اور اس کے مقابلے میں کوئی جنرل پیدا نہیں ہوا۔ شاید یورپین تاریخ دانوں نے صیح طرح حضرت عمر بن خطاب الفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فتوحات کا جائزہ نہیں لیا۔ ورنہ وہ اس کو کبھی بھی حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مقابلے میں ایک عظیم فاتح نہ کہہ سکتے۔ آئیے ہم دنیا کے ان دونوں فاتحوں کو تاریخ کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کون صیح معنوں میں عظیم فاتح تھا۔
سکندر جب بادشاہ بنا تو اس کی عمر 20 سال تھی 16 سال کی عمر تک اس کو دنیا کے بہترین استاد ارسطو سے تعلیم دلاوئی گئی تھی۔ اس کو سکھانے کے لیے دنیا کےبہترین گھوڑ سوار، تیر انداز، نیزاباز اور تلوار بازی میں فن یکتہ رکھنے والے استاد مہیا کیے گئے تھے۔ جبکہ کے دوسری جانب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پچھلی سات پشتوں میں سے کوئی بادشاہ نہ ہوا تھا۔ انہوں نے اونٹوں کو چرواتے ہوئے اپنی جوانی میں قدم رکھا تھا۔ انہوں نے تلوار بازی، تیر اندازی یا گھوڑ سواری کسی استاد سے نہ سیکھی تھی۔
سکندر نے اپنے 10 سالہ دور میں 18 لاکھ مربع میل کا علاقہ ایک مضبوط اور ٹرینڈ آرمی کے ساتھ فتح کیا۔ جب کہ دوسری جانب حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے 10 سال میں نہ صرف 22 لاکھ مربع میل کا علاقہ بغیر کسی ٹرینڈ آرمی کے فتح کیا بلکہ اس وقت کی سپر پاورز روم اور ایران کو بھی شکست دی۔ سکندر نے ان تمام مشہور جنرلوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جو اس کے مقابلے میں کھڑے ہوئے۔ حتکہ کے اس کی اپنی فوج نے بھی ہندوستان میں اس کا حکم ماننے سے انکار کردیا اور مزید آگے جانے سے انکار کرتے ہوئے واپسی کا دنگل بجادیا۔ جبکہ دوسری جانب حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس قسم کے لیڈر تھے کہ دوران جنگ انہوں نے اپنے سب سے کامیاب ترین جنرل حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو عہدے سے ہٹا دیا لیکن کسی کو جرات نہ ہوئی کہ اس فیصلے کے خلاف آواز بلند کرسکے اور حضرت خالد بن ولید نے بھی بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اس عہدے سے دستبردار ہوگئے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کوفہ عراق کی گورنری سے ہٹا دیا، انہوں نے عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جائدار کو ضبط کرنے کا حکم جاری کیا۔ انہو ں نے حرس کے گورنر کو واپس بلا کر سزا کے طور پر اونٹ چرانے پر لگا دیا۔ لیکن کسی بھی ان کے کسی ایک فیصلے کے خلاف آواز بلند نہ کی کیونکہ سب جانتے تھے کہ وہ تمام فیصلے میرٹ اور انصاف پر مبنی تھے۔
سکندر نے 18 لاکھ مربع میل کا علاقہ فتح کیا مگر وہ دنیا کو کوئی نیا سسٹم نہ دے سکا۔ مگر دوسری جانب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس دنیا کو بہت سے ایسے سسٹم دیے جو آج بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں۔
 
سب سے پہلے فجر کی اذان میں (أصلوأة خير من النوم) کا اضافہ آپ ہی کے دور میں کیا گیا۔
باجماعت تراویخ نماز کا آغاز ان ہی کے دور میں باقاعدہ طور پر شروع ہوا۔
انہوں نے شراب پینے والوں کے لیے سزا کا عمل نافذ کیا۔
انہوں نے اسلامی ہجری سال کی بنیاد رکھی۔
انہوں نے موذنوں کی تنخوایں مقرر کیں۔
انہوں نے رات کو مسجدوں میں روشنی کرنے کے لیے دیئے جلانے کا بندوبست کیا۔
انہوں نے ایک مکمل عدالتی نظام کی بنیادرکھی جہاں وہ خود بھی عدالتی حکم پر جوابدہ ہوسکتے تھے۔
انہوں نے مجرموں کے لیے جیل سسٹم کے آئیڈیے کی بنیاد رکھی۔
انہوں نے فصلوں اور زمینوں کو سیراب کرنے کے لیے نہری نظام کی بنیاد ڈالی اور دریاوں سے نہریں نکالیں گئیں۔
انہوں نے پہلی مرتبہ آرمی ایف او بی (فارورڈ آپریٹنگ اڈوں) کی بنیاد رکھی اور ہر چند کلو میڑ کے بعد ایک ایف او بی بنائی گئی جہاں ہر وقت تازہ دم گھوڑے تیار رہتے تھے اور جو کسی بھی قسم کی تیز ترین پیغام رسانی کے لیے استعمال ہوتے تھے اس لیے پیغام رساں کو تھکے ہوئے گھوڑے کو تازہ دم کرنے کے لیے کہیں بھی رکنا نہ پڑتا تھا۔ پیغام رساں کو ہر بیس سے ایک تازہ دم گھوڑا مل جاتا تھا۔
انہوں نے فوج کے ایک مکمل ادارے اور اس کی ذیلی شاخوں (ڈیپارٹمنٹس) کی بنیاد ڈالی۔
انہوں نے دنیا میں پہلی مرتبہ یتیموں اور بیواوں کے لیے وظیفے مقرر کیے۔
انہوں نے دنیا میں پہلی مرتبہ ڈاکخانے (پوسٹ آفس) کے نظام کی بنیاد ڈالی۔
انہوں نے دنیا میں پہلی مرتبہ پولیس کے لیے یونیفارم پہنے کے لیے حکم لاگو کیا۔
 
ان کی میز پر کبھی بھی دو کھانے ایک ساتھ پیشں نہیں کیے گے تھے انہوں نے ہمیشہ سادگی سے زندگی بسر کی۔
وہ سفر میں اپنے بازو کا یا کسی پتھر کا تکیہ بنا کر زمین پر سو جایا کرتے تھے۔
ان کے لباس پر بہت سے پیوند لگے ہوئے تھے۔ وہ کھردرا اور رف کپڑا پہننے کے عادی تھے انہوں نے کبھی باریک لباس نہیں پہنا۔
انہوں نے جب بھی کسی کو گورنر نامزد کیا ہمیشہ اسے نصیحت کی کہ کبھی ترکی گھوڑے پر سوار نہیں ہوگا۔ (اس وقت کے زمانے میں ترکی گھوڑے امیروں کی شان وشوکت کو دکھانے کے لیے استعمال ہوتے تھے)۔
انہوں نے کبھی چھنے ہوئے آٹے کی روٹی نہیں کھائی۔
انہوں نےکھبی اپنے دروازے پر سیکورٹی گارڈ کو کھڑا نہیں کیا تا کہ وہ آنے والےسائیلین کو روک نہ سکے۔
وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ لیڈر وہ ہے جو انصاف کرتا ہے اور سکون کی نیند سوتا ہے۔
ان کی سرکاری مہر پر یہ فقرہ لکھا ہوا تھا۔ "اے عمر نصیحت کے لیے موت کو یاد کرنا ہی کافی ہے۔"
ان کے کہے ہوئے الفاظ (بچہ اپنی ماں کی کوکھ سے آزاد پیدا ہوتا ہے تم نے کب سے اس کو غلام بنا لیا) آج بھی انسانی حقوق کی تنظیموں کے لیے ایک چارٹر (قانون) کا درجہ رکھتے ہیں۔
جب ان کی وفات ہوئی (شہید کیا گیا) تو اس وقت بھی وہ قرضے میں ڈوبے ہوئے تھے اور ان کا قرض ان کا گھر بیچ کر ادا کیا گیا تھا۔
 
اگر آج کے مورخ سکندر اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شخصیات کا مقابلہ کریں تو سکندر کی مثال ایسے ہی ہے جیسے ایک پہاڑ کے سامنے ایک چھوٹا سا پتھر۔ سکندر کی قائم کی ہوئی سلطنت اس کے مرنے کے پانچ سال کے اندر ختم ہوگئی۔ لیکن حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں جن جن علاقوں اور ملکوں کو فتح کیا گیا وہاں آج بھی اسلام کا جھنڈا لہرا رہا ہے اور روزانہ پانچ وقت اذان کی صدائیں بلند ہورہی ہیں۔
 
برصیغر کی تقسیم کے دوران ایک مرتبہ جب مسلمان برطانوی کمپنی کے خلاف لڑ رہے تھے تو لاھور کے مسلمانوں نے برطانوی کمپنی کو دھمکی دی کہ اگر ہم گھروں سے باہر نکل آئے تو تم چنگیز خان کو بھول جاو گئے۔ تو اس وقت جواہر لال نہرو نے کہا تھا کہ افسوس مسلمان اپنی تاریخ کو بھلا بییھٹے ہیں۔ اور وہ یہ بھول گئے ہیں کہ ان کے اندر حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسا ایک عظیم لیڈر اور سپہ سلار بھی تھا جو یہ چنگیز خان کی مثال دے رہے ہیں۔
 
یہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی تھے جنہیں آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود دعا کر کے مانگا تھا۔
وہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی تھے جن کے بارے میں رحمتہ اللہ العالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتا۔
وہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی تھے جن کو دیکھ کر شیطان رستہ بدل لیتا تھا۔
وہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی تھے جن کی بہادری اور فتوحات کو دیکھ کر یہودی بھی کہنے پر مجبور ہو گئے کہ اگر عمر 10 سال اور زندہ رہ جاتے تو پوری دنیا پر اسلام کا پرچم لہرا رہا ہوتا۔
یہ وہی عمر ہیں جو آج ہمارے کریم آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں میں راحت فرما رہے ہیں۔
 
دعا ہے اللہ تعالیٰ ہمیں اور ہمارے حکمرانوں کو صیح معنوں میں ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے۔ آمین۔
سوشل میڈیا پر شیئر کریں یا اپنے کمنٹ پوسٹ کریں

اس قلم کار کے پوسٹ کیے ہوئے دوسرے بلاگز / کالمز
ویلنٹائن ڈے کیا ہے۔
11/02/2018  (6 سال پہلے)   1581
کیٹیگری : سماجی اور سیاسی    قلم کار : ایڈمن

بسنت میلہ (کائیٹ فیسٹیول) اور ہماری روایات
04/02/2018  (6 سال پہلے)   1621
کیٹیگری : فن اور ثقافت    قلم کار : ایڈمن

سرفس ویب، ڈیپ ویب اور ڈارک ویب کیا ہیں۔
29/01/2018  (6 سال پہلے)   2066
کیٹیگری : ٹیکنالوجی    قلم کار : ایڈمن

ذرہ نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
21/01/2018  (6 سال پہلے)   1087
کیٹیگری : سپورٹس اور گیمنگ    قلم کار : ایڈمن

حضرت حافظ محمد اسحٰق قادری رحمتہ اللہ علیہ
15/01/2018  (6 سال پہلے)   1622
کیٹیگری : تاریخ    قلم کار : ایڈمن

وقار انبالوی ایک شاعر، افسانہ نگار اور صحافی
11/01/2018  (6 سال پہلے)   2945
کیٹیگری : تحریر    قلم کار : ایڈمن

جامعہ دارالمبلغین حضرت میاں صاحب
11/12/2017  (7 سال پہلے)   1695
کیٹیگری : مذہب    قلم کار : ایڈمن

ناموس رسالت اور ہمارا ایمان
21/11/2017  (7 سال پہلے)   1523
کیٹیگری : مذہب    قلم کار : ایڈمن

حضرت میاں شیر محمد شیرربانی رحمتہ اللہ علیہ
21/11/2017  (7 سال پہلے)   1601
کیٹیگری : مذہب    قلم کار : ایڈمن

بارکوڈز کیا ہیں اور یہ کیسے کام کرتے ہیں۔
30/10/2017  (7 سال پہلے)   1616
کیٹیگری : ٹیکنالوجی    قلم کار : ایڈمن

ٍصحافتی اقتدار اور ہماری ذمہ داریاں
12/09/2017  (7 سال پہلے)   5350
کیٹیگری : تحریر    قلم کار : ایڈمن

پوسٹ آفس (ڈاکخانہ) شرقپور شریف
29/03/2017  (7 سال پہلے)   2451
کیٹیگری : دیگر    قلم کار : ایڈمن

ہمارا معاشرہ اور کمیونٹی سروس
24/03/2017  (7 سال پہلے)   1762
کیٹیگری : سماجی اور سیاسی    قلم کار : ایڈمن

حاجی ظہیر نیاز بیگی تحریک پاکستان گولڈ میڈلسٹ
19/03/2017  (7 سال پہلے)   2074
کیٹیگری : تاریخ    قلم کار : ایڈمن

جامعہ حضرت میاں صاحب قدس سرہٰ العزیز
16/03/2017  (7 سال پہلے)   1924
کیٹیگری : مذہب    قلم کار : ایڈمن

آپ بیتی
15/03/2017  (7 سال پہلے)   2063
کیٹیگری : سیاحت اور سفر    قلم کار : ایڈمن

جامعہ مسجد ٹاہلی والی
13/03/2017  (7 سال پہلے)   1969
کیٹیگری : مذہب    قلم کار : ایڈمن

ابوریحان محمد ابن احمد البیرونی
11/03/2017  (7 سال پہلے)   2559
کیٹیگری : سائنس    قلم کار : ایڈمن

حضرت سیدنا سلمان الفارسی رضی اللّٰہ عنہ
02/03/2017  (7 سال پہلے)   1975
کیٹیگری : مذہب    قلم کار : ایڈمن

انٹرنیٹ کی دنیا
01/03/2017  (7 سال پہلے)   1826
کیٹیگری : ٹیکنالوجی    قلم کار : ایڈمن

حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ
28/02/2017  (7 سال پہلے)   2042
کیٹیگری : مذہب    قلم کار : ایڈمن

ابرہہ کی خانہ کعبہ پر لشکر کشی
27/02/2017  (7 سال پہلے)   2917
کیٹیگری : مذہب    قلم کار : ایڈمن

خطہ ناز آفریں - شرقپور
21/02/2017  (7 سال پہلے)   1743
کیٹیگری : تحریر    قلم کار : ایڈمن

پاکستان میں صحافت اور اس کا معیار
21/02/2017  (7 سال پہلے)   1717
کیٹیگری : سماجی اور سیاسی    قلم کار : ایڈمن

امرودوں کا شہر شرقپور
11/02/2017  (7 سال پہلے)   4267
کیٹیگری : خوراک اور صحت    قلم کار : ایڈمن

حضرت میاں جمیل احمد شرقپوری رحمتہ اللہ علیہ
15/10/2016  (8 سال پہلے)   4301
کیٹیگری : مذہب    قلم کار : ایڈمن

حضرت میاں غلام اللہ ثانی لا ثانی رحمتہ اللہ علیہ
15/10/2016  (8 سال پہلے)   4447
کیٹیگری : مذہب    قلم کار : ایڈمن

تبدیلی کیسے ممکن ہے ؟
06/10/2016  (8 سال پہلے)   1628
کیٹیگری : سماجی اور سیاسی    قلم کار : ایڈمن

شرقپور کی پبلک لائبریری اور سیاسی وعدے
26/09/2016  (8 سال پہلے)   1947
کیٹیگری : تعلیم    قلم کار : ایڈمن

شرقپور میں جماعت حضرت دواد بندگی کرمانی شیرگڑھی
17/08/2016  (8 سال پہلے)   4466
کیٹیگری : مذہب    قلم کار : ایڈمن

تحریک آزادی پاکستان اورشرقپور
14/08/2016  (8 سال پہلے)   2512
کیٹیگری : تاریخ    قلم کار : ایڈمن

اپنا بلاگ / کالم پوسٹ کریں

اسی کیٹیگری میں دوسرے بلاگز / کالمز


اپنے اشتہارات دینے کیلے رابطہ کریں