اسلام میں محبت کی علامت، اور عفو در گزر کی عظیم مثالیں

01/12/2016  (8 سال پہلے)   1880    کیٹیگری : مذہب    قلم کار : توقیر اسلم

مکہّ میں ابوسفیان بہت بے چین تھا ، " آج کچھ ھونے والا ھے " ( وہ بڑبڑایا ) اسکی نظر آسمان کی طرف باربار اٹھ رھی تھی ۔ اسکی بیوی " ھند " جس نے حضرت امیر حمزہ کا کلیجہ چبایا تھا اسکی پریشانی دیکھ کر اسکے پاس آگئ تھی " کیا بات ھے ؟ کیوں پریشان ھو ؟ " " ھُوں ؟ " ابوُ سُفیان چونکا ۔ کُچھ نہیں ۔۔ " طبیعت گھبرا رھی ھے میں ذرا گھوُم کر آتا ھوُں " وہ یہ کہہ کر گھر کے بیرونی دروازے سے باھر نکل گیا مکہّ کی گلیوں میں سے گھومتے گھومتے وہ اسکی حد تک پہنچ گیا تھا اچانک اسکی نظر شہر سے باھر ایک وسیع میدان پر پڑی ، ھزاروں مشعلیں روشن تھیں ، لوگوں کی چہل پہل انکی روشنی میں نظر آرھی تھی اور بھنبھناھٹ کی آواز تھی جیسے سینکڑوں لوگ دھیمی آواز میں کچھ پڑھ رھے ھوں اسکا دل دھک سے رہ گیا تھا ۔۔۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ قریب جاکر دیکھے گا کہ یہ کون لوگ ھیں اتنا تو وہ سمجھ ھی چکا تھا کہ مکہّ کے لوگ تو غافلوں کی نیند سو رھے ھیں اور یہ لشکر یقیناً مکہّ پر چڑھائ کیلیئے ھی آیا ھے وہ جاننا چاھتا تھا کہ یہ کون ھیں ؟ وہ آھستہ آھستہ اوٹ لیتا اس لشکر کے کافی قریب پہنچ چکا تھا کچھ لوگوں کو اس نے پہچان لیا تھا یہ اسکے اپنے ھی لوگ تھے جو مسلمان ھوچکے تھے اور مدینہ ھجرت کرچکے تھے اس کا دل ڈوب رھا تھا ، وہ سمجھ گیا تھا کہ یہ لشکر مسلمانوں کا ھے اور یقیناً " مُحمّد ﷺ اپنے جانثاروں کیساتھ مکہّ آپہنچے تھے " وہ چھپ کر حالات کا جائزہ لے ھی رھا تھا کہ عقب سے کسی نے اسکی گردن پر تلوار رکھ دی اسکا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا تھا لشکر کے پہرے داروں نے اسے پکڑ لیا تھا اور اب اسے " بارگاہ محمّد ﷺ میں لیجا رھے تھے " اسکا ایک ایک قدم کئ کئ من کا ھوچکا تھا ھر قدم پر اسے اپنے کرتوت یاد آرھے تھے جنگ بدّر ، احد ، خندق ، خیبر سب اسکی آنکھوں کے سامنے ناچ رھی تھیں اسے یاد آرھا تھا کہ اس کیسے سرداران مکہّ کو اکٹھا کیا تھا " محمّد کو قتل کرنے کیلیئے " کیسے نجاشی کے دربار میں جاکر تقریر کی تھی کہ ۔۔۔۔ " یہ مسلمان ھمارے غلام اور باغی ھیں انکو ھمیں واپس دو " کیسے اسکی بیوی ھندہ نے امیر حمزہ کو اپنے غلام حبشی کے ذریعے شہید کروا کر انکا سینہؑ چاک کرکے انکا کلیجہ نکال کر چبایا اور ناک اور کان کاٹ کر گلے میں ھار بنا کر ڈالے تھے اور اب اسے اسی محمّد ﷺ کے سامنے پیش کیا جارھا تھا اسے یقین تھا کہ ۔۔۔ اسکی روایات کے مطابق اُس جیسے " دھشت گرد " کو فوراً تہہ تیغ کردیا جاۓ گا ۔ اُدھر ۔۔۔۔ " بارگاہ رحمت للعالمین ﷺ میں اصحاب رض جمع تھے اور صبح کے اقدامات کے بارے میں مشاورت چل رھی تھی کہ کسی نے آکر ابوسفیان کی گرفتاری کی خبر دے دی " اللہ اکبر " خیمہؑ میں نعرہ تکبیر بلند ھوا ابوسفیان کی گرفتاری ایک بہت بڑی خبر اور کامیابی تھی خیمہؑ میں موجود عمر ابن الخطاب اٹھ کر کھڑے ھوۓ اور تلوار کو میان سے نکال کر انتہائ جوش کے عالم میں بولے ۔۔ " اس بدبخت کو قتل کردینا چاھیئے شروع سے سارے فساد کی جڑ یہی رھا ھے " چہرہ مبارک رحمت للعالمین ﷺ پر تبسّم نمودار ھوا اور انکی دلوں میں اترتی ھوئ آواز گونجی " بیٹھ جاؤ عمر ۔۔ اسے آنے دو " عمر ابن خطاب آنکھوں میں غیض لیئے حکم رسول ﷺ کی اطاعت میں بیٹھ تو گۓ لیکن ان کے چہرے کی سرخی بتا رھی تھی کہ انکا بس چلتا تو ابوسفیان کے ٹکڑے کرڈالتے اتنے میں پہرے داروں نے بارگاہ رسالت ﷺ میں حاضر ھونے کی اجازت چاھی اجازت ملنے پر ابوسفیان کو رحمت للعالمین کے سامنے اس حال میں پیش کیا گیا کہ اسکے ھاتھ اسی کے عمامے سے اسکی پشت پر بندھے ھوۓ تھے چہرے کی رنگت پیلی پڑ چکی تھی اور اسکی آنکھوں میں موت کے ساۓ لہرا رھے تھے لب ھاۓ رسالت مآب ﷺ وا ھوۓ ۔۔۔ اور اصحاب رض نے ایک عجیب جملہؑ سنا " اسکے ھاتھ کھول دو اور اسکو پانی پلاؤ ، بیٹھ جاؤ ابوسفیان ۔۔ !! " ابوسفیان ھارے ھوۓ جواری کی طرح گرنے کے انداز میں خیمہؑ کے فرش پر بچھے قالین پر بیٹھ گیا ۔ پانی پی کر اسکو کچھ حوصلہ ھوا تو نظر اٹھا کر خیمہؑ میں موجود لوگوں کی طرف دیکھا عمر ابن خطاب کی آنکھیں غصّہ سے سرخ تھیں ابوبکر ابن قحافہ کی آنکھوں میں اسکے لیئے افسوس کا تاثر تھا عثمان بن عفان کے چہرے پر عزیزداری کی ھمدردی اور افسوس کا ملا جلا تاثر تھا علیؑ ابن ابوطالبؑ کا چہرہ سپاٹ تھا اسی طرح باقی تما اصحاب کے چہروں کو دیکھتا دیکھتا آخر اسکی نظر محمّد ﷺ کے چہرہ مبارک پر آکر ٹھر گئ جہاں جلالت و رحمت کے خوبصورت امتزاج کیساتھ کائنات کی خوبصورت ترین مسکراھٹ تھی " کہو ابوسفیان ؟ کیسے آنا ھوا ؟؟ " ابوسفیان کے گلے میں جیسے آواز ھی نہیں رھی تھی بہت ھمّت کرکے بولا ۔۔ " مم ۔۔ میں اسلام قبول کرنا چاھتا ھوں ؟؟ " عمر ابن خطاب ایک بار پھر اٹھ کھڑے ھوۓ " یارسول اللہ ﷺ یہ شخص مکّاری کررھا ھے ، جان بچانے کیلیئے اسلام قبول کرنا چاھتا ھے ، مجھے اجازت دیجیئے ، میں آج اس دشمن ازلی کا خاتمہؑ کر ھی دوں " انکے مونہہ سے کف جاری تھا ۔۔۔ " بیٹھ جاؤ عمر ۔۔۔ " رسالت مآب ﷺ نے نرمی سے پھر فرمایا " بولو ابوسفیان ۔۔ کیا تم واقعی اسلام قبول کرنا چاھتے ھو ؟ " " جج ۔۔ جی یا رسول اللہ ﷺ ۔۔ میں اسلام قبول کرنا چاھتا ھوں میں سمجھ گیا ھوں کہ آپؐ اور آپکا دین بھی سچّا ھے اور آپ کا خدا بھی سچّا ھے ، اسکا وعدہ پورا ھوا ۔ میں جان گیا ھوں کہ صبح مکہّ کو فتح ھونے سے کوئ نہیں بچا سکے گا " چہرہؑ رسالت مآب ﷺ پر مسکراھٹ پھیلی ۔۔ " ٹھیک ھے ابوسفیان ۔۔ تو میں تمہیں اسلام کی دعوت دیتا ھوں اور تمہاری درخواست قبول کرتا ھوں جاؤ تم آزاد ھو ، صبح ھم مکہّ میں داخل ھونگے انشاء اللہ میں تمہارے گھر کو جہاں آج تک اسلام اور ھمارے خلاف سازشیں ھوتی رھیں ، جاۓ امن قرار دیتا ھوں ، جو تمہارے گھر میں پناہ لےلے گا وہ محفوظ ھے ، " ۔ ابوسفیان کی آنکھیں حیرت سے پھٹتی جا رھی تھیں ۔ " اور مکہّ والوں سے کہنا ۔۔ جو بیت اللہ میں داخل ھوگیا اسکو امان ھے ، جو اپنی کسی عبادت گاہ میں چلا گیا ، اسکو امان ھے ، یہاں تک کہ جو اپنے گھروں میں بیٹھ رھا اسکو امان ھے ،

لوگ تاج محل کو محبت کی علامت قرار دیتے ھیں مگر یقین کریں کہ عثمانی دور میں مسجد نبوی ﷺ کی تعمیر تعمیرات کی دنیا میں محبت اور عقیدت کی معراج ھے، زرا پڑھیے اور اپنے دلوں کو عشق نبی ﷺ سے منور کریں ۔ ترکوں نے جب مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعمیر کاارادہ کیا تو انہوں نے اپنی وسیع عریض ریاست میں اعلان کیا کہ انھیں عمارت سازی سے متعلق فنون کے ماہرین درکار ھیں، اعلان کرنے کی دیر تھی کہ ھر علم کے مانے ھوۓ لوگوں نے اپنی خدمات پیش کیں، سلطان کے حکم سے استنبول کے باہر ایک شہربسایا گیا جس میں اطراف عالم سے آنے والے ان ماہرین کو الگ الگ محلوں میں بسایا گیا، اس کے بعد عقیدت اور حیرت کا ایسا باب شروع ھوا جس کی نظیر مشکل ھے، خلیفۂ وقت جو دنیا کا سب سے بڑا فرمانروا تھا ، شہر میں آیا اور ھر شعبے کے ماہر کو تاکید کی کہ اپنے ذھین ترین بچے کو اپنا فن اس طرح سکھاۓ کہ اسے یکتا و بیمثال کر دے، اس اثنا میں ترک حکومت اس بچے کو حافظ قرآن اور شہسوار بناۓ گی، دنیا کی تاریخ کا یہ عجیب و غریب منصوبہ کئی سال جاری رھا ، 25 سال بعد نوجوانوں کی ایسی جماعت تیار ہویٔ جو نہ صرف اپنے شعبے میں یکتا ۓ روزگار تھے بلکہ ہر شخص حافظ قرآن اور با عمل مسلمان بھی تھا، یہ لگ بھگ 500 لوگ تھے، اسی دوران ترکوں نے پتھروں کی نئی کانیں دریافت کیں، جنگلوں سے لکڑیاں کٹوایٔیں، تختے حاصل کئے گئے اور شیشے کا سامان بہم پہنچایا گیا،یہ سارا سامان نبی کریم ﷺ کے شہر پہنچایا گیا تو ادب کا یہ عالم تھا کہ اسے رکھنے کے لیۓ مدینہ سے دور ایک بستی بسایٔ گیٔ تا کہ شور سے مدینہ کا ماحول خراب نہ ھو، نبی ﷺ کے ادب کی وجہ سے اگر کسی پتھر میں ترمیم کی ضرورت پڑتی تو اسے واپس اسی بستی بھیجا جاتا، ماھرین کو حکم تھا کہ ھر شخص کام کے دوران با وضو رھے اور درود شریف اور تلاوت قرآن میں مشغول رھے، ھجرہ مبارک کی جالیوں کو کپڑے سے لپیٹ دیا گیا کہ گرد غبار اندر روضہ پاک میں نہ جاۓ، ستون لگاۓ گئے کہ ریاض الجنت اور روضہ پاک پر مٹی نہ گرے ، یہ کام پندرہ سال تک چلتا رھا اور تاریخ عالم گواہ ھے ایسی محبت ایسی عقیدت سے کویٔ تعمیر نہ کبھی پہلے ھوئی اور نہ کبھی بعد میں ھوگی.

سبحان الله مبارک مہینے میں فتح مکہ ایک عظیم فتح کی صورت میں معرض وجود میں آئی جس کے بارے میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِيْنًاۙ۔۱ لِّيَغْفِرَ لَكَ اللّٰهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْۢبِكَ وَ مَا تَاَخَّرَ وَ يُتِمَّ نِعْمَتَهٗ عَلَيْكَ وَ يَهْدِيَكَ صِرَاطًا مُّسْتَقِيْمًاۙ

۲ "اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! (یقیناً ) ہم نے تم کو کھلی فتح عطا کر دی(1) تاکہ اللہ تمہاری اگلی پچھلی ہر کوتاہی سے در گزر فرمائے اور تم پر اپنی نعمت کی تکمیل کر دے اور تمہیں سیدھا راستہ دکھائے (2)"

اسلام کی عظیم الشان انقلابی تاریخ کے اوراق میں واقعہ فتح مکہ کو اس اعتبار سے انفرادیت حاصل ہے کہ یہ تاریخ عالم کا پہلا واقعہ ہے جب ایک بستی کے اندر دس ہزار مجاہد، مہاجر مکی حضرت رسول مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں بھر پور عسکری تیاری کے ساتھ داخل ہوتے ہیں اور بغیر کسی کشت وخون ، ماردھاڑ ، لوٹ کھسوٹ اور تشدد کے فتح ومسرت کا جھنڈا گاڑ کر عفو ودرگذر اور معافی کا اعلانِ عام ہوتاہے ۔فوجی حکمت عملی کے تحت سالارِ افواج نے چار جماعتوں میں اپنی فوج کو تقسیم کرنے کی ہدایت فرمائی تھی اورمکہ کو چار اطراف سے گھیرے میں لینے کا منصوبہ تشکیل دیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس فوجی دستے کے پیچھے پیچھے چلتے رہے جس کی علمبرداری حضرت عبیدہ رضی اللہ عنہ ابن الجراج کر رہے تھے۔اطاعت ، جذبۂ عبودیت اور سرفروشی کے جملہ عناصر کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین اس شہر کی جانب بڑھ رہے تھے جہاں سے رات کی تنہائی وتاریکی میں آٹھ سال پہلے کفارِ مکہ نے ہجرت پر مجبور کردیا تھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنے مولدومسکن کی وسعتیں تنگ کردی گئی تھیں، ہرطرح کی اذیتیں پہنچائی گئیں ۔ ان روح فرساں تکالیف کی روداد پڑھ کر انسان ورطۂ حیرت میں پڑتاہے کہ کیا یہ اس عظیم انسان کا مل صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روا رکھا گیاتھا جو سراپا رحمت ومودّت تھے لیکن پھر تاریخ اس بات کے شواہد پیش کرتی ہے کہ حق وصداقت کی با ت کرنے والوں سے انسانی معاشرے کا ہمیشہ یہی روّیہ رہا ہے حق پرستوں سے زمانے کی دغا آج بھی ہے تیرے بندوں پہ ستم میرے خدا آج بھی ہے سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے روز سرِ مقدس پر سیاہ عمامہ باندھ رکھا تھا۔(اس دستارِرحمت صلی اللہ علیہ وسلم پر دونوں جہاں قربان ہوں) جوں ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ کے حدود میں تشریف فرما ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہیں کعبۃ اللہ کی جانب اُٹھیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم اونٹنی پر سوار تھے ۔ سرِ نازنین کو اس قدر جھکادیا کہ عمامہ شریف کی سلوٹیں ڈھیلی پڑ گئیں ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جس عسکری جماعت کے ساتھ چل رہے تھے اس میں ایک شاعر عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ بھی تھے جو نعتیہ اشعار پڑھ رہے تھے ۔

’’آج مکہ پر ستارۂ صبح طلوع ہوا۔ آج ہمارے درمیان اللہ کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے جو خدا کی کتاب کی آیات تلاوت کررہاہے ۔ آج ہم ان سے بدلہ لیں گے جنہوں نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جلاوطنی پر مجبور کردیاتھا‘‘

رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں آج اہلِ مکہ کو امن وآزادی کی بشارت ملنے والی ہے ۔ کفارانِ قریش دس ہزار قدسی صفات صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین اور ان کے دائیں بائیں بے شمار ملائکہ (جوآنکھوں کودکھائی نہیں دیتے تھے) سے خوفزدہ ہوچکے تھے ،مزاحمت اور مقابلے کے لئے سامنے نہیں آئے ، جو مقابلہ آرائی عربوں کے مزاج کی خصوصیت تھی ۔ کفارانِ مکہ کی خاموشی ، ندامت ،انکساری اور گھبراہٹ کو بھانپ کر سالارِ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے خانۂ کعبہ کے دروازے پر کھڑے ہوکریہ الفاظ بیان کئے:

’’اے گروہِ قریش! اللہ نے تم سے جاہلیت کی نخوت اور آبا واجداد پر فخر وغرور زائل کردیا ۔ سب انسان آدم سے پیدا ہوئے اور آدم مٹی سے ‘‘۔ اس کے بعد قرآن حکیم کی سورہ الحجرات کی وہ آیت تلاوت فرمائی جس کا ترجمہ ہے

’’اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور ہم نے تمہارے گروہ اور قبیلے بنائے ،تاکہ تم ایک دوسرے کوپہچان سکو ۔ بے شک تم میں سب سے بہتر اللہ کے نزدیک وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہے ۔ یقیناً اللہ خبیر وعلیم ہے ‘‘۔

اس کے فوراً بعد فرمایا ! ’’ اے قریش ! میں تمہارے بارے میں جو کچھ کرنے والا ہوں اس کے بارے میں تم کیا رائے رکھتے ہو ‘‘۔ سب نے کہا ’’بہتر رائے رکھتے ہیں ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم شریف بھائی ہیں ۔شریف بھائی کے بیٹے ہیں‘‘۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جائو اب تم آزاد ہو‘‘ ۔ یہی وہی جملہ تھا جو حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں سے کہا تھا جنہوں نے ایک مرحلے پر جناب یوسف علیہ السلام کو اندھیرے کنوئیں میں ڈال دیا تھا اور اپنے والد حضرت یعقوب علیہ السلام سے کہا تھا کہ یوسف علیہ السلامکو بھیڑیا کھاگیا۔ اللہ نے اپنے پیارے کی مددکی ،قافلہ گزرا۔ یوسف علیہ السلام کو کنوئیں سے نکالا گیا ۔ مصر کے بازار میں فروخت ہوا ۔ سلطنتِ مصر کا ایک وزیر وامیر ہوگئے جنہوں نے ایک زمانے میں انہیں مٹانے کی کوشش کی تھی ان سے وہ بدلہ لے سکتاتھا لیکن ایسا نہیں ہوا ،انہیں بلا تامل معاف کردیا ، آ زادی کا پروانہ ان کے ہاتھوں میں تھمادیا ۔ فتحِ مکہ کے اس تاریخی اور مثالی واقعے کو اقبال مرحوم نے فقط دوشعروں میں سمیٹا ہے

آنکہ بر اَعداء درِ رحمت کشاد مکہ را پیغام لا تشریب داد وقتِ ہیجا تیغ او آہن گداز دیدۂ او اشکبار اندر نماز

ترجمہ : جس نے دشمنوں پر رحمت کا دروازہ کھولا ۔ مکہ کو ’’کوئی غم نہیں‘‘ کا پُرسکون پیغام سنایا۔(یعنی عام معافی کا اعلان کردیا)۔ میدانِ جنگ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار لوہے کو پگھلاتی ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں نماز میں آنسو بہارہی ہیں ۔

فتح مکہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں پر ایسا ہمہ گیر اثرات مرتب کیا کہ وہی خون کے پیاسے ،دین کے بدترین دشمن اور جنگ وقتال میں یقین رکھنے والے ایسے پاکباز اور خداترس بن گئے کہ چشم عالم نے آج تک ایسی انسانی شخصیات کے پیکر نہیں دیکھے ۔انسان کی فطرت میں انتقام اور قصاص کا عنصر موجود ہے اور یہ انفرادی واجتماعی دونوں سطحوں پر کارفرما رہتاہے لیکن فاتح مکہ نے اپنی علمی اور نبوی حیاتِ طیبہ میں دنیا پر یہ بات واضح کردی کہ انہیں جوڑنے کے لئے مبعوث کیا گیا ہے کہ نہ کہ توڑنے کے لئے ۔ فرمانروا اور فاتحین کی تاریخ بتاتی ہے کہ کس طرح فوجی پیش رفت کے موقعوں پر قتل عام کیا گیا ، درخت کاٹے گئے اور بستیاں نذرِ آتش کی گئیں۔ اسلام کے سپہ سالارؐ کا اسلوب ہی مختلف ہے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معافی کا اعلان فرمایا تو اپنے انتہائی درجہ کے دشمن ابوسفیان کے بارے میں فرمایا کہ جو ابوسفیان کے گھر میں داخل ہوگا اس کو بھی امان حاصل ہے ۔فتحِ مکہ کے بعد شعرائے عرب نے اس واقعہ کو منظوم انداز میں پیش کیا ہے ۔ ان اشعار کا مرکزی خیال بھی یہی ہے کہ اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا مزاج معافی ، فراخدلی اور انسان دوستی ہے ۔

touqeersahib@gmail.com

سوشل میڈیا پر شیئر کریں یا اپنے کمنٹ پوسٹ کریں

اس قلم کار کے پوسٹ کیے ہوئے دوسرے بلاگز / کالمز
کلمہ پڑھا ہوا ہے !!
18/03/2017  (7 سال پہلے)   1715
کیٹیگری : مذہب    قلم کار : توقیر اسلم

ایک فکر انگیز تحریر
19/10/2016  (8 سال پہلے)   1352
کیٹیگری : تحریر    قلم کار : توقیر اسلم

اپنا بلاگ / کالم پوسٹ کریں

اسی کیٹیگری میں دوسرے بلاگز / کالمز

جامعہ دارالمبلغین حضرت میاں صاحب
11/12/2017  (7 سال پہلے)   1701
قلم کار : ایڈمن
کیٹیگری : مذہب

ناموس رسالت اور ہمارا ایمان
21/11/2017  (7 سال پہلے)   1528
قلم کار : ایڈمن
کیٹیگری : مذہب

حضرت میاں شیر محمد شیرربانی رحمتہ اللہ علیہ
21/11/2017  (7 سال پہلے)   1607
قلم کار : ایڈمن
کیٹیگری : مذہب

کلمہ پڑھا ہوا ہے !!
18/03/2017  (7 سال پہلے)   1715
قلم کار : توقیر اسلم
کیٹیگری : مذہب

جامعہ حضرت میاں صاحب قدس سرہٰ العزیز
16/03/2017  (7 سال پہلے)   1937
قلم کار : ایڈمن
کیٹیگری : مذہب

جامعہ مسجد ٹاہلی والی
13/03/2017  (7 سال پہلے)   1976
قلم کار : ایڈمن
کیٹیگری : مذہب

حضرت سیدنا سلمان الفارسی رضی اللّٰہ عنہ
02/03/2017  (7 سال پہلے)   1981
قلم کار : ایڈمن
کیٹیگری : مذہب


اپنے اشتہارات دینے کیلے رابطہ کریں