شرقپور شریف کی سر زمین نے بے شمار دانشوروں، شاعروں اور صحافیوں کو جنم دیا ہے۔ جن کی ادبی سربلندی اور علمی سرفرازیوں کے چرچے ان کی جنم نگری کی محدود فضاوں سے ابھر کر لامحدود دنیائے علم وادب کا حصہ ہی نہیں بلکہ علم اودب کا افتخار اور تہذیب کا نگار بن چکے ہیں۔
شرقپور سے بہت سے لوگ جو صحافت سے منسلک رہے ہیں اور جنہوں نے اس قصبے کا نام پوری دنیا میں روشن کیا ان میں:
عبدالرزاق جنجوعہ - مغربی پاکستان، ہفت روزہ چٹان
شیخ سعید احمد - پاکستان ٹائمز
محمد عارف نوشاہی - نوائے وقت، خبریں
محمد صدیق طاہر - جنگ
توقیر احمد گوندل - نوائے وقت امروز، جمہور، وفاق، آفاق، سعادت، تعمیر
ملک مشتاق احمد - امروز، مساوات
طاہر حمید - مشرق
محمد انور قمر - امروز، نوائے وقت، صحافت (ماہنامہ) عشبہ، حق نما، نوراسلام
ان کے علاوہ رسائل شائع کرنے میں شرقپور شریف نے ایک اہم کردار ادا کیا ہے مثلا
مولوی محمد امین شرقپوری - بیس سال تک نئی کہانی دہلی سے نکالا کرتے تھے اور پھر لاھور سے حقیقت اسلام، شمع، بچوں کی دنیا، آئینہ، جیسے رسائل شائع کرتے رہے۔
صاحبزادہ میاں جمیل احمد صاحب شرقپوری - (ہفتہ روزہ) نوائے پاکستان، اخبار مجدد الف ثانی، (پندرہ روزہ) آواز نقشبند، (ماہنامہ) نوراسلام، جو نصف صدی پوری کرچکا ہے۔
حضرت علامہ نصرت نوشاہی صاحب - (ماہنامہ) نصرت، نوشاہی، حق نما
انور عباس ارشد یا انور عباس انور - (ماہنامہ) خاص لوگ، اچھے بچے، (پندرہ روزہ) نئے چہرے
ڈاکٹر میاں مقصود احمد - (ماہنامہ) جبل رحمت
احمد علی قائد شرقپوری - (ماہنامہ) محبوب
مقصود احمد شرقپوری - (ماہنامہ) عشبہ لاھور، حق نما لاھور، تریل لاھور
شرقپور کی صحافت میں اس کے علاوہ جو نام لیے جاتے ہیں ان میں نوائے وقت کے مشرق اخبار کے لیے، جناب کرامت اور شمس جو ماسٹر رمضان ٹیچر کے بیٹے ہیں اور جو شرقپور میں بنک والی گلی میں رہتے رہے ہیں۔، اس کے علاوہ جناب توقیر گوندل صاحب محلہ عیدگاہ سے جو نوائے وقت اخبار سے 1980 سے پہلے منسلک تھے اور کافی لمبا عرصہ اس کے ساتھ منسلک رہے۔ اس کے علاوہ جیا موسٰی سے محمد انوراور محمد حنیف جو مشرق اخبار کے کوٹ عبدالمالک کے لیے اور نوائے وقت کے فیروزوالہ کے لیے صحافی تھے اور اس کے علاوہ وہ امروز اخبار کے بھی صحافی تھے۔ یہ پورے ضلع شیخوپورہ بشمول شرقپور کو بھی کور کرتے تھے۔ صحافت کے ان ابتدائی دنوں میں خبریں پارسل یا ٹیلی گرام کے زریعے بیجی جاتی تھیں یا پھر ٹیلی فون پر لکھوای جاتی تھیں اور اس کے لیے ٹیلی فون ایکسینج میں جانا پڑتا تھا۔ 1980 کی دہائی میں سب سے پہلے جنگ اخبار کے لیے جناب انور عباس انور صاحب کام کرتے رہے ہیں جو اس وقت انور عباس ارشد کے نام سے بھی جانے جاتے تھے،جن کا ذکر اوپر بھی کیا گیا ہے۔ 2011 میں انہوں نے اپنا نام انور عباس انور رکھا لیا ۔ انہوں نے ہی ملک مشتاق گجراتی کو شرقپور میں امروز اخبار کا نمائندہ لگوایا۔ اس وقت ہفتے کے بعد 4 صفحوں کا ایک کلر ایڈیشن آتا تھا۔ جو فلم اور خواتین وغیرہ کے ٹاپک پر مشتمل ہوتا تھا۔
شرقپور میں پہلے کوئی باقاعدہ پریس کلب نہیں تھا بلکہ ایک انجمن صحافیاں ضلع شیخوپورہ میں ہوتی تھی جس کے صدر حاجی محمد اشرف تھے جو کہ شرقپور میں بھی آکر اجلاس کرتے تھے۔ اس کے علاوہ منڈی فیض آباد، ننکانہ، بچیکی وغیرہ میں بھی صحافت کے پرچار کے لیے جاتے تھے۔
شرقپور کے دوسرے بہت سے صحافی جو صحافت کرتے رہے ہیں ان میں جناب صدیق طاہر، اختر عباس اور عبدالروف جو جاوید ڈینٹسٹ کے رشتہ دار بھی تھے پھر وہ روزگار کے لیے سعودی عرب چلے گئے وہ کچھ عرصہ جنگ اخبار سے منسلک رہے ہیں۔
شرقپور کے بہت سے صحافی شرقپور کے باہر بھی صحافت کرتے رہیں اور شرقپور کا نام روشن کرتے رہیں ان میں جناب میاں نصرت نوشاہی صاحب جو نسیم حجازی کے روزنامہ کوہستان میں لاھور میں صحافت کے فرائض سرانجام دیتے رہے ہیں ۔ اس کے علاوہ وقار امابالوی صاحب بھی شامل ہیں۔ شرقپور میں باقاعدہ طور پر پریس کلب کا نام تقریبا 7 یا 8 سال پہلے لیا گیا اور اس کی بنیاد جناب جمشید رفیق ملک صاحب نے رکھی ۔
جب پریس کلب شرقپور کی بنیا د کچھ سال قبل شرقپور شریف میں رکھی گئی تو چند صحافیوں کا ایک گروپ اکھٹا ہوا جن کا مقصد شرقپور میں صحافت کی پیشہ ورانہ سرگرمیوں اور اس کے متعلقہ پیشے سے وابستہ لوگوں کی زندگیوں میں بہتری لانا تھا اور شرقپور شریف میں صحافت، تعلیمی اور سماجی سرگرمیوں کو فروغ دینا تھا۔ آج اس پریس کلب کے تقریبا 50 کے قریب ممبران زندگی کے ہر شعبے کی نمائندگی کررہے ہیں اور صحافت کی دنیا میں اپنا نام روشن کررہے ہیں۔
اس پریس کلب کا مقصد لوکل صحافیوں کی حوصلہ افزائی کرنا اور ان کو ایک ایسا پلیٹ فارم مہیاکرنا ہے جہاں سے وہ اپنی صحافت کی سرگرمیوں کو بلا خوف وخطر جاری رکھ سکیں اور عوام کی بہتری کے لیے کام کرسکیں۔ اس کے علاوہ نئے ابھرنے والے نوجوان صحافیوں کی حوصلہ افزائی کرنا اور ان کو ایک ایسا ماحول دینا ہے جہاں سے وہ رہنمائی حاصل کرسکیں۔ اس پریس کلب میں حکومت، سیاست، کاروبار، کھیل، تعلیم اور زندگی کے دوسرے شعبوں سے وابستہ دوسرے لوگ اور رہنما ہر دن دورہ کرتے ہیں اور اس کی تقریبات میں اپنا اظہار خیال کرتے ہیں کیوں کہ تمام پریس یہاں موجود ہوتا ہے۔ اس پریس کلب میں صحافی روزانہ کی بنیاد پر کام کرتے ہیں اس لیے خبروں کے لیے اس سے اچھی اور کوئی جگہ نہیں ہو سکتی ۔ یہ پریس کلب ایک صحافتی زندگی کے علاوہ سماجی اور پیشہ ورانہ سرگرمیوں کا مرکز بھی ہے جہاں خبریں بریک ہوتی ہیں اور نکلتی ہیں اور جو ایک تاریخ بناتی ہیں۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں صحافی اور ادیب اپنی آنے والی اگلی نسل کے لیے ایک پلیٹ فارم مہیا کرتے ہیں تا کہ ان کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو نکھار سکیں اور ان کو بہتر سماج کی خدمت کرنے والا بنا سکیں۔
نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشتے ویراں سے
زرہ نم ہوتو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی